محنت سے ملے کامیابی |
"کامیابی آپ کی
ظاہری حالت کو نہیں بلکہ آپ کے جنون اور جذبے کو دیکھتی ہے ۔"
ملک معراج خا لد پاکستان کی تاریخ میں ایک کامیاب سیا ست
دان کی حیثیت سے جانے جا تے ہیں ۔ انہوں نے غربت کے باوجود حتمی گول، محنت،کامیابی
کی سچی لگن ، کچھ کر گزرنے کی تڑپ ، ایمانداری اور مسلسل جدوجہد کی بدولت اپنی زندگی میں عظیم کامیابیاں حاصل کیں اورپاکستان کی آنے والی نسلوں کے لئے ایک مثال
بنے ۔ یہاں ان کی زندگی میں آنے والی مشکلا ت کا مختصراً جائزہ پیش کیا جا رہا ہے
۔
آج سے تقریباً سو سا ل قبل لا ہو ر کے ایک نو احی گا ؤں میں ایک نہا یت غریب گھر انے میں ایک بچہ پیداہوا ۔ چا ر بہن بھا ئیوں میں یہ سب سے چھو ٹا تھا ۔ پو را گا ؤں ان پڑھ مگر اسے پڑھنے کا بے حد شو ق تھا ۔ اسکے گا ؤں میں سکو ل نہ تھا لہٰذا یہ ڈیڑھ میل دور دوسرے گا ؤں میں پڑھنے جا تا ۔ راستے میں ایک بر ساتی نا لہ تھا ۔ اسے ہر روز اس نا لے میں سے گزرنا پڑتا ۔ چھٹی جما عت پا س کر نے کے بعد وہ 8 میل دور دوسرے گا ؤں میں تعلیم حاصل کر نے جا تا ۔ اس نے مڈل کا امتحان امتیا زی نمبر وں سے پا س کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔ مزید تعلیم کے لئے لا ہو ر آیا ۔ یہا ں اس نے سنٹرل ما ڈل سکو ل میں جو کہ اس وقت لا ہو ر کا نمبر 1 سکو ل تھا ، داخلہ لیا ۔ اس کا گا ؤں شہر سے 13 کلومیڑ دور تھا ۔ غربت کی وجہ سے اسے اپنی تعلیم جا ری رکھنا مشکل تھی۔ مگر اس نے مشکل حا لا ت کے سا منے ہتھیا ر نہ پھینکے بلکہ ان کا مقا بلہ کر نے کا فیصلہ کیا ۔ اس نے تہیہ کیا کہ وہ اپنی تعلیمی سر گرمیوں کو جا ری رکھے گا چا ہے اس کے لئے اسے کچھ بھی کر نا پڑے ۔ وہ اپنے گا ؤں اور آس پا س کے دیہا ت سے دو دھ اکٹھا کر کے شہر میں بیچے گااور اپنے تعلیمی اخراجا ت پو رے کر کے اپنے مقصد کو حاصل کرے گا۔ چنا نچہ وہ صبح منہ اندھیرے اذان سے پہلے اٹھتا ، مختلف گھر وں سے دو دھ اکٹھا کر تا ، ڈرم کو ریڑھے پر لا دتا اور شہر پہنچتا ۔ شہر میں وہ نواب مظفر قزلبا ش کی حویلی اور کچھ دکا نداروں کو دودھ فر وخت کر تا ، مسجد میں جا کر کپڑے بدلتا اور سکو ل چلا جا تا ۔ کا لج کے زمانے تک وہ اسی طر ح دو دھ بیچتا اور تعلیم حا صل کر تا رہا۔ اس نے غر بت کے با وجود کبھی دو دھ میں پا نی نہ ملا یا ۔
بچپن میں اس کے پا س سکو ل کے جو تے نہ تھے ، سکو ل کے لئے
بو ٹ ضروری تھے۔ جیسے تیسے کر کے اس نے کچھ پیسے جمع کر کے بو ٹ خر ید لئے ۔ اب
مسئلہ یہ تھا کہ اگر وہ گا ؤں میں بھی بوٹ پہنتا تو وہ جلد گھس جا تے ، چنا نچہ وہ
گا ؤں سے والد کی دیسی جو تی پہن کر آتا ۔ شہر میں جہا ں دودھ کا بر تن رکھتا وہا
ں پر اپنے بو ٹ کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیتا ۔ وہیں جو تے بدلتا اور سکو ل چلا جا تا
۔ شا م کو گا ؤں واپس جا کر جو تے والد کو واپس کر دیتا ۔ بقول معروف کا لم نگا ر
جا وید چوہدری والد سا را دن اور بیٹا سا ری را ت ننگے پا ؤں پھر تا ۔
1935 ء میں اس نے میٹر ک میں نما یا ں پو زیش حا صل کی اور
پھر اسلا میہ کا لج ریلو ے روڈ لا ہو ر میں داخلہ لیا ۔ وہ اب بھی اپنے تعلیمی اخر
اجا ت پو رے کر نے کے لئے گا ؤں سے ریڑھے پر دودھ لا تا اور شہر میں فر وخت کر تا۔
اس کا م میں اس نے عا ر محسو س نہ کی ۔ کالج کے پہلے سال میں اس کے پا س کو ٹ نہ
تھا، کلا س میں کو ٹ پہننا لا زمی تھا ، چنا نچہ اسے کلا س سے نکا ل کر غیر حا ضری
لگا دی جا تی ، لگا تا ر غیر حا ضری کی وجہ سے اس کا نا م خا رج کردیا گیا ۔ انجمن
کو اس مسئلے کا علم ہو اتو اس نے اس ذہین طا لب علم کی مد د کی ۔ اس نو جو ان کو
پڑھنے کا بے حد شو ق تھا ۔
1939ء میں اس نے
بی۔اے آنرز کیا، یہ اپنے علا قے میں واحد گر یجویٹ تھا۔ اس دوران وہ جا ن
چکا تھا کہ دنیامیں کوئی بھی اہم کا م آسانی سے سرانجا م نہیں دیا جا سکتا ۔ کا
میابیوں اور اپنے آپ کو بہتر ین ثا بت کر نے کے لئے انتھک محنت اور تگ و دو کی
ضرورت ہے ۔
معاشی دباؤ کے تحت
بی۔اے کے بعد اس نے با ٹا پور میں کلر کی کی نو کر ی کرلی، چونکہ اس کا
مقصد اور گول لا ء کر نا تھا لہٰذا کچھ عر صہ بعد کلرکی چھوڑ کر قانو ن کی تعلیم
حا صل کر نا شروع کر دی اور 1946ء میں ایل ایل بی کا امتحا ن پا س کر لیا ۔ 1950ء
سے با قا عدہ پریکٹس شروع کردی ،اس پر خدمت خلق اور آگے بڑھنے کا بھو ت سوار تھا ۔
اس نے لو گوں کی مد د سے اپنے علا قے میں کئی تعلیمی ادارے قائم کئے ۔ اسی جذبہ کے
تحت پہلی با ر 1965ء میں مغربی پا کستان اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کا میا ب ہو ا ۔
پیپلزپا رٹی کے روٹی کپڑے اور مکا ن کے نعرے سے متا ثر ہو کر اس میں شا مل ہو گیا
۔
1970ء میں پیپلز پا رٹی کے ٹکٹ پر ایم ۔این۔ اے منتخب ہوا اور نو اب مظفر علی قزلباش کے بھا ئی کو ، جن کے گھر یہ دودھ بیچا کر تا تھا، شکست دی ۔ 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کا بینہ میں وزیرخوراک و پسماندہ علا قہ جا ت بنا ۔
1972ء میں پا کستان کے سب سے بڑے صوبے پنجا ب کا وزیراعلیٰ
بنا ۔ وزارت اعلیٰ کے دوران بھی اکثر رکشے پر سفر کر تا ۔ اپنے گورنر غلا م مصطفیٰ
کھر کے ساتھ نبھا ہ نہ ہو نے کی وجہ سے استعفیٰ دے کر ایک مثا ل قا ئم کی ۔ 1973ء
میں اقوام متحدہ میں پا کستان کے وفد کی قیا دت کی ۔ 1975ء میں اسے وفا قی وزیر
قانون و پا رلیمانی امور بنا یا گیا ۔ 1976ء میں اسے وفاقی وزیر بلدیا ت و دیہی
ترقی مقرر کیا گیا ۔ دودفعہ سپیکر قومی اسمبلی بنا اور 4 سا ل تک انٹر نیشنل اسلا
می یو نیورسٹی اسلا م آبا د کا ریکٹر رہا ، ایک مفلس ان پڑ ھ کسان کا بیٹا جس نے
کا میا بی کا لمبا اور مشکل سفر دودھ بیچنے سے شروع کیا اور آخر کا پا کستان کا
وزیر اعظم بنا ۔ یہ پا کستا ن کا ایسا منفر د وزیر اعظم تھا جو سا ری عمر لا ہو ر
میں لکشمی مینشن میں کرا ئے پر رہا، جس کے دروازے پر کوئی دربان نہ تھا ۔ جس کا
جنا زہ اسی کر ائے کے گھر سے اٹھا ، جو لو ٹ کھسوٹ سے دور رہا ، جس کی بیوی اس کی
وزارت عظمیٰ کے دوران رکشوں اور ویگنوں میں دھکے کھا تی تھی ۔
ملک معراج خا لدغریب اور محنتی طلبا ء کے لئے رول ماڈل کی
حیثیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی محنت ، مستقل مزاجی اور یقین کا مل سے غربت کے ساتھ ساتھ اپنی کامیابی کی راہ میں حا ئل ہررکاوٹ کو
بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ عبور کیا اور اپنی منزل کو پا لیا ۔