Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

محسن پا کستان

 

محسن پا کستان
محسن پا کستان

14 اگست 1947ء پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم دن کی حیثیت رکھتا ہے ، کیوں کہ اس دن یہ مملکت خداداد معرض وجو د میں آئی ۔ اس دن کے بعد سے اگر کوئی دوسرا اہم دن تاریخ میں تلا ش کیا جا ئے جو کہ پوری پاکستانی قوم کے لئے مبارک ، قابل فخر اور خوشی سے مزین ہے تو وہ 28مئی 1998ء کا دن ہے ۔ اس دن کو حرف عام میں یو م تکبیر کے نا م سے یا د کیا جا تا ہے ۔ اس دن 3 بج کر 16 منٹ پر چا غی کے پہاڑوں میں پا کستان نے ایٹمی دھما کہ کر کے پو ری دنیا خصو صاًبھا ر ت کو حیر ان و پر یشان کر دیا۔ اس طرح پا کستان دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت بن گیا جب کہ اسلامی دنیا کا اب تک یہ پہلا اور آخری ملک ہے جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے ۔ اس ایٹم بم کے لئے نہ صرف اہلیا ن پا کستان بلکہ پورا عالم اسلام ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا احسان مند ہے ۔ اسی لئے آپ کو محسن پا کستان کہا جا تا ہے ۔ اس مضمون میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی کا مختصر جا ئزہ لیا گیا ہے ۔

ڈاکٹر عبدالقدیرخان ہندوستان میں 1936ء میں پیدا ہو ئے ۔ آپ نے 1952ء میں ایک عام سکو ل سے میٹرک کا امتحا ن پا س کیا ۔ ایک کتاب کے مطابق تو آپ میڑک میں حساب کے مضمون میں فیل بھی ہوئے تھے۔ یعنی ڈاکٹر صاحب  بہت زیا دہ نمبرحا صل کر نے والے طلبہ میں سے نہ تھے ۔ اسی سال آپ کا خاندان ہجرت کرکے پا کستان آگیا ۔ انہوں نے کراچی میں F.Sc   نا ن میڈیکل میں داخلہ لے لیا۔ انہیں فزکس کا مضمون بہت پسند تھا۔ اسی دور میں انہوں نے فزکس میں کمال حا صل کرنے کا عہد کیا۔

ڈاکٹر خان کو بچپن ہی سے مطالعے کا شوق تھا ۔ آپ نسیم حجا زی کے نا ول بہت شوق سے پڑھتے ۔ وہ نسیم حجا زی کو ہندوستان میں اسلام کی نشاۃثانیہ کا با عث سمجھتے تھے اور اپنے دوستوں کو ان کے نا ول پڑھنے کی تلقین کر تے تھے ۔ بچپن ہی سے آپ کے خیالا ت بہت بلند تھے ۔ آپ اونچے خواب دیکھتے اور دوستوں سے کہتے "یا رو سنو! اسے دیوانے کا خواب نہ سمجھنا ۔ میں بڑا ہو کر سا ئنس پڑھوں گا اور بہت بڑا انجنئیربن کر ایک ایسا منصوبہ بنا ؤں گا کہ دنیا یا درکھے گی ۔میرے کا م سے مسلمانوں کو بہت فا ئدہ پہنچے گا۔ "

اگرچہ F.Sc    میں نہ انہوں نے ٹاپ کیا اور نہ وظیفہ حا صل کیا مگر ان کے دما غ میں ایک بڑا انجنئیربننے کا بھوت سوار تھا ۔ یعنی ان کو اپنے مقصدحیا ت کا شعور تھا اور ان کا مقصد بہت واضح تھا ۔ اگرچہ انہوں نے اپنے مقصدحیات کو قلم بند نہیں کیا تھا ، تا ہم وہ اس کا گہر اادراک رکھتے تھے ۔ 1957ء میں انہوں نے بی ایس سی کی۔ بی ایس سی میں بھی وہ ٹاپر نہ تھے اور نہ ہی انہوں نے وظیفہ حا صل کیا ۔ ان دنوں ان کے ما لی حالات اچھے نہ تھے جس کی وجہ سے وہ اپنی اعلیٰ تعلیم جا ری نہ رکھ سکے ۔ چنا نچہ انہوں نے ملا زمت کر لی اور وہ محکمہ اوزان و پیما نہ جا ت میں انسپکٹر بھر تی ہو گئے ۔ اس محکمہ میں انہوں نے 3 سال ملا زمت کی ۔ ان 3 سالوں میں کو ئی دن ایسا نہ تھا جب انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے حصو ل کی خا طر بیرون ملک جا نے کے لئے تگ و دو نہ کی ہو ۔ وہ جرمنی کی مختلف یو نیورسٹیوں کو اپنے کوائف ارسال کر تے رہے مگر انہیں داخلہ نہ ملا ۔ وہ ان نا کا میوں سے ما یو س نہ ہو ئے بلکہ اپنی کو شش جا ری رکھی ۔ ان کو اپنی کا میا بی کا پو را یقین تھا چنا نچہ اس دوران انہوں نے جرمن زبان بھی سیکھ لی۔ ان کی استقامت رنگ لا ئی اور آخرکا ر تیسرے سال ان کو جر منی کی ایک یو نیورسٹی میں داخلہ مل گیا ۔ وہاں انہوں نے دوسال تعلیم حا صل کی ۔ وہاں سے وہ ہا لینڈ چلے گئے جہا ں انہوں نے 1967ء میں ایم ایس سی کا امتحا ن پا س کیا ۔

1967ء میں ڈاکٹر خان پا کستان آئے اور کراچی سٹیل ملز میں ملا زمت حا صل کرنے کی کو شش کی مگر نا کا م رہے ۔ اللہ تعالیٰ کو ان سے ایک بڑا کا م لینا تھا ۔ چنا نچہ وہ ہا لینڈ واپس چلے گئے ۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے بلجیم سے پی ایچ ڈی کر لی ۔ ڈاکٹر صاحب کو پا کستان سے بے پنا ہ محبت تھی اور ہے ، وہ اپنے ملک کی خدمت کے لئے پا کستان آنا چا ہتے تھے۔ چنا نچہ انہوں نے پا کستان کے مختلف اداروں کو اپنی خدمات پیش کیں مگر کسی بھی ادارے نے ان کی خدمات سے فا ئدہ اٹھا نے کے رضا مند ی کا اظہا ر نہ کیا ۔ تاہم یہ نا کا می ان کو ما یو س نہ کر سکی ۔

1971ء کی پا ک بھا رت جنگ کے زمانہ میں ڈاکٹر صاحب بلجیم میں ہی تھے ۔ وہا ں انہوں نے ٹیلی ویژن پر سقوط ڈھا کہ کی فلم میں پا کستا نی فوج کو ہتھیا ر ڈالتے دیکھا تو تڑ پ کر رہ گئے ۔ وہ اپنے ملک کی نا توانی پر بے چین تھے اور کئی ہفتے انہوں نے کر ب او راذیت میں گزارے ۔ یہ لمحہ ان کی زندگی کا سنگ میل تھا جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی تما م صلا حیتیں اور توانا ئیاں پا کستان کے لئے وقف کر دیں گے اور اسے نا قابل تسخیر بنا ئیں گے ۔ چنا نچہ انہوں نے نئے سرے سے پا کستان آنے کے لئے رابطے شروع کر دیے ۔ مگر ایک دفعہ پھر آپ کو کوئی مثبت جواب نہ ملا ۔ تا ہم انہوں نے حوصلہ نہ چھوڑا۔ اسی دوران 1974ء میں بھا ر ت نے ایٹمی دھما کہ کر دیا جس سے ڈا کٹر خان کے دل پر ایک گہر ا چر کہ لگا۔ با ر با ر کی نا کا میوں نے ان کے حوصلے پست نہ کئے ۔ چنا نچہ ایک بار پھر انہوں نے پا کستان آنے کی کو شش کی ۔ اس مرتبہ انہوں نے وزیراعظم پا کستان ذوالفقار علی بھٹو کو برا ہ راست خط لکھا ۔ ڈاکٹر خا ن نے ان کو بتا یا کہ وہ پا کستان کو سستی اور مؤثر ایٹمی صلا حیت فراہم کر سکتے ہیں۔

وزیر اعظم پا کستان ذوالفقار علی بھٹو نے آپ کو پا کستا ن آنے کی دعوت دی ، چنا نچہ آپ ملک کی خدمت کے جذبے کے تحت مئی 1976ء میں ہا لینڈ میں بہت اچھی ملا زمت چھوڑ کر معمولی معاوضے پر پا کستا ن آگئے ۔ انہوں نے پا کستان اٹا مک انرجی کمیشن میں بطور ایڈوائزر کا م کر نا شروع کر دیا ۔ مگر کمیشن کے لو گوں خصوصا ًچئیرمین منیر احمد خان نے آپ کو بہت پر یشا ن کیا ۔ اس نے ڈاکٹر خان کو بھگا نے کی پو ری کو شش کی ، تا ہم پا کستان کی خو ش قسمتی کہ ڈاکٹر صاحب ثا بت قدم رہے ۔ جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اس صورت حا ل کا علم ہو ا تو انہوں نے جو لا ئی 1976ء میں کہوٹہ پراجیکٹ کو اٹا مک انرجی کمیشن سے علیحدہ کر کے خود مختا ر ادارہ بنا دیا۔

ڈاکٹر خان نے بے سروسامانی اور ما یوسی کی فضا میں جو ہر ی منصوبے کی داغ بیل ڈالی اور اس پراجیکٹ کی تعمیر کے لئے بہت تیز رفتا ری سے کا م شروع کیا ۔ اس کے لئے انہوں نے اپنی تما م تر صلا حیتیں کھپا دیں ۔ دن رات ایک کر دیا ۔ اپنے بیوی بچوں تک کو بھول گئے ۔ آپ بیس ، بیس گھنٹے کا م کر تے ۔ با لآخر 1978ء میں ڈاکٹر خان سینٹر ی فیوج کے تحت یو رینیم کو افزودہ کر نے میں کا میا ب ہو گئے ۔ یہ حیر ان کن کا م آپ نے صرف تین سا ل کے قلیل عر صہ میں کر دکھا یا ۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان

اگرچہ پا کستان ایٹم بم کا دھما کہ 1984ء میں کر سکتا تھا ، مگر کچھ مصلحتوں کی بناء پر اس میں تا خیر کی گئی۔ اٹیم بم بنا نے کے ساتھ ساتھ ڈا کٹر خا ن نے میزائل سا زی کا بیڑا بھی اٹھا یا ۔ چنا نچہ کہوٹہ لیب نے 1989ء میں زمین سے فضا میں کم فا صلے تک ما ر کرنے والا کندھے پر رکھ کر چلا یا جا نے والا عنزہ میزائل بنا یا ۔ پھر زمین سے زمین پر اینٹی ٹینک بکتر شکن میزائل بنا یا۔ 1998ء میں ڈاکٹر خان نےپو ری پا کستانی قوم اور عالم اسلام کو  زمین سے زمین تک 1500 کلومیٹر تک ما ر کر نے والا مہلک اور جدید ترین بلا سٹک میزائل غوری I کا تحفہ دیا ۔ یہ میزائل ایٹمی ہتھیا ر لے جا نے کی صلا حیت رکھتا ہے ۔ 1999ء میں غوری II کا بھی کا میا ب تجربہ کیا ۔ اس کے علا وہ ڈاکٹر خان نے پا کستان کے لئے لیزر بم بھی بنا یا ۔

آخرکا ر ڈاکٹر خان نے اپنے بچپن کے خواب کو سچ کر دکھا یا ۔ اوسط درجے کی ذہا نت اور تعلیمی کیرئیررکھنے والے ڈاکٹر خان اپنی محنت ، لگن اور جذبہ حب الوطنی سے سرشا ر وہ معجزہ کر گئے جو سارے عالم اسلام کے ذہین فطین اور ٹاپر بھی نہ کر سکے ۔ حکو مت پا کستان نے ڈاکٹر عبدالقدیرخان صا حب کی خدمت کے اعتراف میں انہیں ہلا ل امتیا ز سے نوازا ۔  

ڈاکٹر عبدالقدیرخان 2001ء سے ریٹائرڈ زندگی گزاررہے تھے۔10اکتوبر 2021ء کو آپ کا انتقال ہوا۔اس طرح اس مملکت خداداد پا کستان کے دفاع کو نا قابل تسخیر بنا نے والے عظیم ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہمیشہ والی ابدی زندگی کی طر ف کو چ کیا ۔ ہماری دعا ہے اللہ پا ک ان کو جواررحمت میں جگہ عطا فرمائے  اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فر مائے ۔ آمین۔