Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

دنیا میں کوئی چیز نا ممکن نہیں

 

دنیا میں کوئی چیز نا ممکن نہیں
دنیا میں کوئی چیز نا ممکن نہیں

یہ ایک با حوصلہ اور محنتی انسان کی "ناممکن کے حصول "اور اسکی حقائق پر مبنی12 سالہ جدوجہد کی بپتا ہے،مکمل تفصیل میں جا نا تو مشکل ہے لیکن اس کی بڑی بڑی کا میابیوں کا مختصر تذکرہ کیا گیا ہے کہ کیسے اس نے اپنی سوچ کو ایک لا زوال جدوجہد میں ڈھال کر اپنے مقصد میں کا میا بی حا صل کی ۔ وہ 1996ء میں شکا گو لا ء سکو ل میں ایک استا د کے طورپر فرائض منصبی سرانجا م دے رہا تھایہ ایک سر د دوپہر تھی، شکا گو لا ء سکول کے ٹھنڈے کو ریڈور تھے اور وہ ان برآمدوں میں آہستہ آہستہ چل رہا تھا ، اس کے ایک ہا تھ میں بریف کیس تھا ، دوسرے ہا تھ میں فا ئلیں تھیں اور اس نے یہ فا ئلیں سینے پر رکھ کر انہیں ہا تھ سے دبا رکھا تھا ، اس کے چہرے پر فکر کی کئی لکیریں بکھری تھیں ، وہ اس عا لم میں سٹا ف روم میں دا خل ہو ا، اس کے زیا دہ تر ساتھی کا فی کا مگ اٹھا کر ایک دوسرے سے گپ شپ میں مصروف تھے ۔ اس نے کمرے کا جا ئزہ لیا ، اس کا قریبی دوست کھڑکی کے پا س اکیلا کھڑا تھا ، اس نے فائلیں اور بریف کیس میز پر رکھا، اوورکوٹ کھونٹی پر لٹکا یا اور مسکراتا ہوا دوست کے پا س پہنچ گیا، دوست نے مسکرا کر پو چھا "آپ کا آج کا دن کیسا گزرا؟" اس نے گرم جو شی سے جو اب دیا "گڈ" اس کا دوست ماہر نفسیا ت تھا اور وہ شکا گو لاء سکول میں مجرموں کی نفسیات پڑھا تا تھا، وہ فوراً اس کی کشمکش تک پہنچ گیا "تم کیا سوچ رہے ہو " اس کے دوست نے اس سے برا ہ راست پو چھ لیا ، وہ مسکرایا اور بڑے یقین سے بولا "میں نے امریکہ کا صدربننے کا فیصلہ کر لیا ہے "اس کے دوست کے پیٹ سے ایک قہقہہ ابلا لیکن اس نے قہقہے کو حلق میں روک لیا ، وہ اپنے دوست کی نفسیا ت سے واقف تھا، وہ جا نتا تھا یہ قہقہہ ان کی دوستی میں دراڑ ڈال دے گا چنانچہ دوست نے فوراًکھڑکی سے باہر دیکھا اور مسکر ا کر کہا "آج سردی کچھ زیا دہ نہیں  ؟" اس  نے دوست کے سوال کا کو ئی جو اب نہ دیا، دوست کی نظریں کھڑکی سے پھسلتی ہو ئی واپس اس کے چہر ے پر آئیں ، دوست نے غور سے اس کی طر ف دیکھا اور مسکر اتے ہو ئے پوچھا "آر یو سیریس" اس نے اثبات میں سر ہلا یا اور بولا"پاگل پن کی حد تک سیریس" اس کے دوست نے اس کا ہا تھ پکڑا، دونوں کھڑکی سے چند قدم پیچھے ہٹے اور کرسیوں پر آکر بیٹھ گئے ۔

نفسیا ت دان دوست نے چند لمحے سوچا اور پھر ٹھہرے ٹھہر ے لہجے میں بولا "میں تمہا رے آئیڈیے کے ساتھ اتفا ق نہیں کر تا " اس نے پو چھا "کیوں" وہ بولا " اس کی تین وجو ہا ت ہیں نمبر ایک یہ کہ تمہا ری رنگت ، تم سیا ہ فام ہو اور امریکہ کی تا ریخ میں صدر تو دور آج تک کو ئی سیا ہ فا م کسی اہم عہدے تک بھی نہیں پہنچ سکا۔ نمبر دویہ کہ تمہا راوالد مسلما ن تھا ، تمہا ر ا سوتیلا والد  بھی مسلما ن تھا اور امریکہ ابھی اتنا لبرل نہیں ہو ا کہ وہ تمہا ر ا ایک مسلمان کے گھر پیداہو نے کا جر م معاف کر دیں ، نمبر تین تمہا رے خا ندان میں آج تک کوئی سیا ست دان نہیں گزرا چنا نچہ میں یہ سمجھتا ہو ں انسان کو کوئی ایسا کا م نہیں کر نا چا ہیے جس کا اسے تجربہ نہ ہو ، جس میں کا میا بی کے امکا نا ت کم ہو ں اور جس کی پہلے کو ئی مثال بھی مو جو د نہ ہو "اس کا دوست خا مو ش ہو گیا ، اس نے غو ر سے دوست کی بات سنی اور اس کے بعد بولا "میرے پا س بھی اپنے ا س فیصلے کی تین وجوہا ت ہیں، نمبر ون امریکہ تبدیل ہو رہا ہے ، امریکہ کے 80فیصد لو گ مڈل کلا س ہیں ، ان میں سے اکثریت گوروں کی ہے اور مجھے ان گوروں کی آنکھوں میں اپنے لئے ہمدردی محسوس ہو تی ہے ۔  اس ہمدردی کی وجہ پا نچ سو سال کا وہ جبر ہے جو گوروں نے میر ے رنگ اور میری نسل سے روارکھا ، امریکہ کا مڈل کلا س گورا آج اس زیا دتی پر شرمندہ ہے ، میں اس شرمندگی کا فا ئدہ اٹھا سکتا ہو ں "وہ رکا ، اس نے سو چا اور دوبارہ بولا "میں نے تاریخ کا بڑے غور سے مطالعہ کیا ، مجھے تاریخ نے بتا یا ، دنیا میں کسی قوم کا صبر کبھی ضا ئع نہیں جا تا ، اس ملک کے سیا ہ فا موں نے پا نچ سو سال تک صبر کیا ، مجھے محسوس ہو تا ہے اب اس صبر کے نتیجے کا وقت آچکا ہے اور میں اس وقت کا فا ئدہ اٹھا سکتا ہوں ، نمبر دومیرا کا لا رنگ اور میرے والد کا مسلمان ہو نا میری سب سے بڑی طاقت ہے ، میں اپنی کمزوریوں سے واقف ہو ں چنانچہ میں اپنی کمزوری کو بڑی آسانی سے اپنی قوت بنا سکتا ہوں اور نمبر تین میں یہ سمجھتا ہوں انسان قدرت کی واحد مخلو ق ہے جس کے لئے دنیا میں کو ئی چیز نا ممکن نہیں ، جس انسان نے سمندرمیں اترکر تیرنے اور ہواؤں  اور فضاؤں کے سینے چیر کر اڑنے کا فن سیکھ لیا ، جس نے خلیے کے اند ر کی دنیا جا ن لی اس انسان کے لئے امریکہ کا صدر بننا زیا دہ مشکل نہیں " وہ خا مو ش ہو گیا ، دوست نے چند لمحے سو چا اور اس کے بعد پو چھا "تم مجھے اپنی کوئی سی پا نچ خو بیا ں بتا ؤ"وہ چند لمحے خا مو ش رہا اور اس کے بعد بولا "میر ی پہلی خوبی یہ ہے کہ میں ہا رنے کے بعد حوصلہ نہیں ہا رتا، میر ی دوسری خوبی یہ ہے کہ میں جب کوئی کا م شروع کر تا ہوں تو پھر اس میں وقفہ نہیں آنے دیتا،  لو گوں کی باتوں کا اثر لئے بغیرمسلسل اپنی محنت اور لگن جا ری رکھتا ہوں ، میر ی تیسری خوبی یہ ہے کہ میں عام لو گوں کی نفسیا ت سمجھتا ہوں ، میں ان کے جذبات ، احساسات اور ضروریا ت کو سمجھتا ہوں ، میری چو تھی خوبی اخلا ص ہے ، میں نے آج تک کسی کو دھوکا نہیں دیا، میں نے کبھی وعدہ نہیں توڑا ، میں نے کبھی صلے کو سامنے رکھ کر نیکی نہیں کی اور میری پا نچویں خو بی امید ہے ، میں بر ے سے برے حا لا ت میں بھی امید کا دامن ہا تھ سے نہیں چھو ڑتا ، میرے دوست میرے بارے میں کہتے ہیں کہ  اگراس کو تنور میں پھینک دیا جا ئے تو یہ اپنے پسینے سے آگ بجھا نے کی کو شش شروع کر دے گا۔ "

وہ خا مو ش ہو گیا ، اس کے دوست نے چند لمحے سو چا اور اس کے بعد بو لا "میں تمہیں ایک چھٹی خوبی کا تحفہ دینا چا ہتا ہوں "وہ خا موشی سے اس کی طر ف دیکھنے لگا، دوست بولا " میں نے دنیا کے تما م بڑے لیڈروں میں ایک مشترکہ خو بی دیکھی ، یہ تمام لو گ مسکر اہٹ اور سنجیدگی کے استعما ل کے ما ہر تھے، یہ ایک منٹ میں مسکر ا بھی سکتے تھے اور اسی منٹ میں ان کے چہرے پر مو ت جیسی سنجیدگی بھی آ جا تی تھی ، تم نے جس دن سنجیدگی اور مسکراہٹ کا استعما ل سیکھ لیا ، تم کا میا ب لیڈ ر ثا بت ہو گے " اس کے ساتھ ہی وہ اپنی سیٹ سے اٹھا ، اس کے سا منے جھکا اور مسکر ا کر بو لا "میں آپ کی کامیابی کے لئے دعا گو ہوں ، مسٹر پریذیڈنٹ۔"

شکا گو لا ء سکو ل کا یہ استا د با راک حسین اوباما تھا ، اس نے 1996ء میں ایک نا ممکن کا م کا بیڑا اٹھا یا ، وہ تما م ملا قا تیوں سے پو چھتا تھا کہ "آپ امریکہ کو کیسا دیکھنا چا ہتے ہیں " 80فیصد لو گ جو اب دیتے تھے کہ "ہم امریکہ کو تبدیل ہو تا دیکھنا چا ہتے ہیں " اس کا اگلا سوال ہو تا تھا کہ "تمہا ری نظر میں امریکہ کے صدر کو کیسا ہو نا چا ہیے" اس کے جو اب میں بھی 90فیصد لو گ کہتے تھے "ایسا شخص جو امریکہ کو ہر سطح پر تبدیل کر دے"اس نے ان دونوں سوالوں کے جو ابوں کو اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیا ، وہ تبدیل کا لیڈ ر بن گیا، اس نے 1996ء میں میں ہی اپنی منزل کی طر ف پہلا کا میا ب قدم اٹھا یا اور ایلنا ئس سٹیٹ سے سینیٹر کا الیکشن لڑا اور جیت گیا ، سینیٹ میں اس نے ایسے قوانین پا س کرائے جن کا اثر برا ہ راست عا م شہر ی پر ہوا، جس سے اس کی شہر ت میں اضا فہ ہو ا، اس کی یا دداشت بڑی شا ندار تھی ، اس نے امریکہ کے تما م چھوٹے بڑے صحا فیوں کے نا م یا د کر لیے ،جلد ہی  وہ امریکہ کا واحد سیا ست دان بن چکا تھا جو پر یس کا نفرنس میں صحا فیوں کو ان کے نا م سے پکا رتا تھا اور وہ ان کے خا ند ان تک سے واقف تھا ۔2004ء میں اس نے دوسری اہم سیڑھی عبور کی جب قومی سینیٹ کا الیکشن لڑ کر کا میا بی حا صل کی اور وہ امریکہ کی تا ریخ کا پا نچواں سیا ہ فا م سینیٹر بن گیا ، سینیٹ میں پہنچ کر اس نے 18، 18 گھنٹے کا م کیا ، اس کو سینیٹ کی تما م کا رروائی ، ایشوز کی بیک گراؤنڈ ز اور آئینی دفعا ت کی تفصیلا ت تک ازبر ہو گئی تھیں، اس کی محنت اور سچی لگن کا نتیجہ یہ نکلا کہ جلد ہی اس کا شما رامریکہ کے گیا رہ طاقت ور ترین سینیٹرز میں ہو نے لگا ۔ 2007ء میں اس نے خود کو صدارتی امیدوار ڈکلئیر کر دیا ، امریکہ کے تما م صدارتی امیدوار انتخا بی مہم کے لئے امیروں سے چندے لیتے ہیں لیکن اس نے چندہ جمع کر نے کی مہم غریبوں سے شرو ع کی ، اس نے عوام سے 5 ڈالر سے 200 ڈالر تک کی امداد کی درخواست کی ، نتیجہ حیرت انگیز نکلا ، اس نے 6 ما ہ 58 ملین ڈالر جمع کر لئے ، یہ امریکی تا ریخ میں ایک ریکا رڈ تھا ۔ جنوری 2008ء میں اس نے ایک ما ہ میں 36 ملین 80ہزار ڈالر جمع کئے ، یہ بھی ریکا رڈ تھا اور اس نے ڈیموکریٹک پا رٹی کی مقبول ترین امیدوار ہیلری کلنٹن کو بھی صدارتی دوڑ سے با ہر نکا ل دیا، یہ بھی ایک ریکا رڈ تھا ۔

دنیا میں کوئی چیز نا ممکن نہیں

اپنی مسلسل محنت اور سچی لگن کی بدولت با راک حسین اوباما 4 نو مبر 2008ء کو امریکہ کا نیا صدر منتخب ہو گیا ،آخرکا
 ر اس نے اپنی منزل پا لی تھی ، اس نے 5 نو مبر کی شا م شکاگو میں ہی قوم سے پہلا خطا ب کیا ، اس خطاب میں اس نے آسمان کی طر ف دیکھ کر نعرہ لگا یا "دنیا میں کو ئی چیز نا ممکن نہیں " اور اس کے ساتھ ہی شکا گو کی پو ری فضا گو نج اٹھی "دنیا میں کوئی چیز نا ممکن نہیں " اوبا ما نے سچ کہا ، واقعی دنیا میں کوئی چیز نا ممکن نہیں ، بس حو صلہ ، امید، محنت ، اخلا ص اور ویژن چا ہیے اور ایک سیا ہ فا م انسان صرف 12 سال کے قلیل عرصے میں دنیا میں سپر پا ور کہلا نے والے ملک کا صدر بن جا تا ہے ، با را ک حسین اوباما دنیا کے ان تما م نو جو انوں کے لئے مشعل راہ ہے جو مشکل کا نا ممکن سمجھتے ہیں ، جنہیں اپنی ذات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین نہیں ، جو خو د کو حقیر اور کمزور سمجھتے ہیں۔ بس  ان کو حو صلہ ، امید، محنت ، اخلا ص اور ویژن کی ضرورت ہے اور کا میا بی ان کے قدموں میں ہو گی ۔