Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

صبروشکر

صبروشکر
 صبروشکر


انسان خواہ امیر ہو یا غریب ، شرقی ہو یا غربی ، نیک ہو یا بد، مسلم ہو یا غیر مسلم ، اس پر ایسے وقت بھی آتے ہیں جب اسے مصائب کا سامنا کر نا پڑتا ہے ، دنیا کے حا لا ت اس کے لئے نا گوار ہو تے جا تے ہیں ۔ اس کے بر عکس ایسا بھی ہو تا ہے کہ انسان کو طر ح طرح کی نعمتیں اور خوشیاں ملتی ہیں اور اسے راحت و آرام نصیب ہو تا ہے ۔ دین اسلام ہمیں پہلی قسم کے حا لا ت میں صبر اور دوسری قسم کے حا لات میں شکر کا رویہ اختیار کر نے کا درس دیتا ہے ۔

صبر دراصل انسان کی قوت برداشت کا نتیجہ ہو تا ہے ۔ جو شخص جتنا متحمل اور بردبار ہو گا ، وہ اتنا ہی زیا دہ صا بر ہو گا ۔ شکر انسان کی خودسپردگی کا نا م ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ کی جا نب سے اسے خوشگوار حا لا ت پیش آتے ہیں تو نا شکرے انسان سے اپنی کا وشوں اور صلا حیتوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں اوراپنی کا میابیوں پر ایسا جشن منا تے ہیں جس میں دل کھول کر وہ اپنے رب کی نا فرمانی کر تے ہیں ۔ اس کے بالکل بر عکس ایک بند ہ مو من یہ سمجھتا ہے کہ یہ صر ف اور صرف اس کے رب کی عطا ہے اور وہ اس حا لت میں اس کی کو ئی نا فرمانی نہیں کر تے اور خود کو اس کے حضو ر جھکا دیتے ہیں ۔



بعض بزرگوں کے نزدیک شکر کی منزل صبر سے زیا دہ کٹھن ہے ۔ مصائب میں تو انسان کے سامنے صبر کے سوا کوئی چا رہ نہیں ہو تا لیکن خوشیاں ملنے پر اس کے سامنے دونوں راستے کھلے ہو تے ہیں کہ چا ہے تو وہ صبر کر ے اور چا ہے نہ کر ے ۔ ما مو ن الرشید معتصم باللہ کے دور میں امام احمد بن حنبل ؒ پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے اور آپ کو شدید جسمانی اور نفسیاتی ٹارچر کا نشا نہ بنا یا گیا ۔ آپ نے پو ری طر ح اس پر صبر کیا ۔ معتصم کے بعد جب متوکل علی اللہ کا دور آیا تو اس نے آپ پر انعام و اکرام کی بارش کر دی ۔ اس مو قع پر آپ نے فرمایا کہ میر ے لئے یہ آزما ئش پہلی سے زیا دہ سخت ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا تعلق انسان کی شخصیت سے ہو تا ہے ۔ بعض لو گوں کے لئے صبر کی آزمائش آسان ہو تی ہے اور بعض کے لئے شکر کی ۔ رسول کریم ﷺ صبروشکر دونوں مو اقع پر نماز پڑھ کرصبروشکر کیا کر تے ۔ شدید مصائب میں بھی آپ کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور مضبوط ہو جا تا اور کا میابیوں پر بھی آپ کی گردن نیاز اپنے پروردگار کے سامنے جھکی ہو تی ۔ طا ئف سے واپسی کے مو قع پر ، جب آپ پر پتھر برسا کر آپ کو شدید جسمانی اور ذہنی اذیت پہنچا ئی گئی تب بھی آپ نے صرف اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کی اور جب فتح مکہ کے مو قع پر آپ کا لشکر جرار فا تحا نہ شان سے مکہ میں داخل ہو رہا تھا تو دنیا دار فاتحین کے برعکس آپ ﷺ کی گردن شکر کے جذبات کے ساتھ اتنی جھکی ہو ئی تھی کہ سر مبا رک اونٹنی کے کو ہان سے ٹکر ا رہا تھا ۔ شکر کا بہتر ین طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمت آپ کو عطا کی ہے ، اس کی خوشیوں میں اپنے ساتھ اپنے ان بھا ئیوں کو بھی شریک کیجئے جو اس سے محروم ہیں مثلا ً اچھی جا ب ملنے کی خوشی میں صدقہ کیجئے ، اگر اپنی شا دی پر خرچ کر رہے ہیں تو اس رقم کا کچھ حصہ اپنے آس پا س محلے میں مو جو د غریب لو گوں کو بھی دیجئے جو محض ما ل کی کمی کی وجہ سے دنیا وی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہیں ۔اپنی خوشیوں میں اپنے غریب محلے داروں ، دوستوں  کو یا د کرکے اور ان کی مد د کر کے آپ بہترین طریقے سے اللہ تعالیٰ کی دی گئی نعمتوں کا شکر بجا سکتے ہیں ۔