Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

غصہ اور جارحیت

غصہ اور جا رحیت
 غصہ اور جا رحیت

غصہ اور جا رحیت بھی ایک فطر ی جذ بہ ہے جو انسان میں اس وقت پیدا ہو تا ہے جب اسے کسی مقصد کے حصو ل میں رکا وٹ پیش آئے یا اپنی خواہش اور رضامندی سے وہ جو کچھ کر نا چا ہے نہ کر سکے ۔ اس فطری جذبے کو عموما ً ہمارے ہا ں برا سمجھا جا تا ہے ۔ حا لا نکہ اس کا صرف غلط استعما ل ہی بر اہو تا ہے ۔ جا رحیت کا غلط استعما ل وہی ہو تا ہے جسے ہم اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ لو گ غصہ آنے پر گالی گلوچ، غیبت یا پھر لڑنے جھگڑنے پر اتر آتے ہیں ۔ اسی کے نتیجے میں بہت مرتبہ ایک فریق دوسرے پر زیا دتی بھی کر جا تا ہے ۔ دنیا بھر میں تخریب کا ری اور دہشت گردی اسی جذبے کے تحت ہو تی ہے ۔

جا رحیت کے جذبے کا صحیح استعما ل یہ ہے کہ کسی جا ئز خواہش کی تکمیل میں اگر رکا وٹ پیدا ہو جا ئے تو اس سے پیدا ہو نے والے جذبے کو مثبت رخ پر مو ڑ کر اسے قوت عمل میں تبدیل کر دیا جا ئے اور اس سے بڑے بڑے کا رنا مے انجا م دیے جا ئیں ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کسی ادارے میں ایک شخص کی ترقی کی راہ میں کو ئی رکا وٹیں پیدا کر رہا ہے تو وہ اس لڑا ئی جھگڑا کرنے کی بجا ئے جا رحیت کے جذبے کو اپنی صلا حیتوں کے بھر پور استعمال میں خر چ کر تے ہوئے اپنی اہلیت کو ثا  بت کر ے ۔ دین اسلا م نے غصے کے بارے میں بھی رہنما ئی کی ہے ۔ قرآن کر یم اور حضو ر نبی کر یم ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعے سے یہ معلو م ہو تا ہے کہ شدید غصے کی حا لت میں انسان کو خو د کو کنٹر ول کر نے کی کو شش کر نا چا ہیے اور اس حا لت میں کسی فیصلے سے اجتنا ب کر نا چا ہیے ۔ اس حا لت میں بھی معا ف کر دینا سب سے بہتر ہے ۔

قرآن پا ک کی سورۃ آل عمر ان کی آیت نمبر 134 میں اللہ پا ک فر ما رہا ہے : ۔

         ترجمہ :          ایسے لو گ جو غصے پر قا بو پا نے والے ہو ں اور لو گوں کو معا ف کر نے والے ہو ں ،

ٍ                  بے شک اللہ احسان کر نے والوں کو پسند کر تا ہے ۔

رسول نبی کر یم ﷺ  نے غصے کی حا لت کے بارے میں تلقین فرما ئی ہے کہ ایسا شخص اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جا ئے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جا ئے ۔ اس طر ح اس کے غصے کی شدت کم ہو گی ۔ اسی طر ح بعض روایا ت میں ایسی حا لت میں وضو کر نے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ غصے کی شد ت کنٹرول ہو سکے ۔

اگر ہم اپنے دائرہ کا ر میں کوئی برا ئی یا ظلم دیکھیں تو اسے ختم کر نے کی آرزو ہما رے اند ر پیدا ہو نی چا ہیے ۔ اس صورت میں بھی آپے سے با ہر ہو نا ، اپنی حدود سے متجا وز کر نا اور دوسروں سے لڑائی جھگڑ ا کر نا درست نہیں ۔ انسا ن کو ہمیشہ کو ئی اقدام کر تے وقت خو د کو ٹھنڈا رکھنا چا ہیے اور کبھی بھی اپنی قانو نی اور اخلا قی حدود سے تجا وز نہیں کر نا چا ہیے ۔


مثا ل کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص معاشرے میں بے حیا ئی اور منشیا ت پھیلا رہا ہے ۔ ایسی صورت میں اس سے ڈائر یکٹ تصا دم کی بجا ئے بہتر ین طر یقہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں قانون نا فذ کر نے والے اداروں کو اطلا ع دی جا ئے یا پھر معا شرے میں اس کے با ئیکا ٹ کی مہم چلا ئی جا ئے اور لو گوں کو اس چیز کے نقصا نا ت سے آگا ہ کیا جا ئے ۔ بعض لو گ ان اداروں کی نا اہلی اور کر پشن کو بنیا د بنا کر خو د لڑائی جھگڑ ا کر نے پر اتر آتے ہیں۔ ان کا یہ طر ز عمل درست نہیں کیو ں کہ ہمیں اتنا ہی کا م کر نا چا ہیے جتنے کا ہم سے تقا ضا کیا گیا ہے ۔ بعض اوقات ہم غصے اور جا رحیت کی حا لت میں اپنی قانونی و اخلا قی حدود سے تجا وز کر کے خود ہی ایک نئے اور غلط کا م کا آغا ز کر رہے ہو تے ہیں جس کے نتا ئج بسا اوقات اس سے کہیں برے نکلتے ہیں جو اس شخص کے برے کا م سے نکل سکتے ہوں ۔