| اخلا ص |
اخلا ص یا خلو ص ہماری شخصیت کا وہ پہلو ہے جس کے ہونے کی وجہ سے کوئی دوسر اہم پر اعتبار کر سکتا ہے ۔ اخلا ص کا معنی ہے نیت کا پا کیزہ اور خا لص ہو نا ۔ نیت کا یہ خلو ص اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور بندوں کے ساتھ بھی ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیت کے خلو ص کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو نیک عمل بھی کر ے ، صرف اور صر ف اللہ تعالیٰ کو راضی کر نے کے لئے کر ے ، اس میں اس کا کوئی دنیا وی مفا د پیش نظر نہ ہو ۔ بندوں کے ساتھ خلو ص یہ ہے کہ انسان کی نیت میں کسی قسم کا کوئی کھوٹ نہ ہو اور وہ سب کا خیر خواہ ہو ۔
اللہ تعالیٰ کے لئے جو اعما ل کئے جا تے ہیں ، ان میں نیت کے خالص ہو نے کو اس قدر اہمیت حا صل ہے کہ حضو ر نبی کر یم ﷺ نے ہر عمل کا دارومدار نیت ہی کو قرار دیا ہے اور یہ بھی ارشا د فرما دیا ہے کہ کو ئی شخص جس مقصد کے لئے کو ئی کا م کر تا ہے اسے وہی حا صل ہو تا ہے ۔ اگر کوئی ما ل و دولت یا شہر ت و نا موری کے حصو ل کے لئے جہا د جیسا اعلیٰ عمل بھی کر تا ہے تو اسے وہی ملے اور اللہ تعالیٰ کے ہا ں اس کا کوئی اجر نہ ہو گا ۔ ایک اور حدیث کے مطا بق ایسے لو گ جو قرآن مجید کی تلا وت داد وصو ل کرنے کے لئے کر تے رہے ، معا شرے میں اعلیٰ مقام بنانے کے لئے سخا وت کے دریا بہا تے رہے اور شہر ت کے لئے جہا د جیسا عمل کر تے رہے ، وہ آخر ت میں کو ئی اجر نہ پا سکیں گے اور جہنم میں پھینک دئیے جا ئیں گے ۔ جب ایک عمل اللہ تعالیٰ کے لئے کیا ہی نہیں گیا تو پھر وہ اس کا اجر کیوں دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ریا کا ری شرک اصغر قرار دیا گیا ہے ۔ انسا نوں کے ساتھ خلو ص کو حضو ر نبی کر یم ﷺ نے خیر خواہی سے تعبیر فرمایا ہے ۔ مشہو ر حدیث ہے کہ "الدین نصیحتہ" یعنی کہ "دین خیرخواہی کا نا م ہے "۔ایک بندہ مو من کا یہ کا م ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ خیر خواہی سے پیش آئے ۔ ان کا خیال رکھے اور ان کے حقوق پو رے پورے ادا کر ے ۔ جو ایسا نہیں کر تا ، اسے اس دنیامیں بھی ذلت کا سامنا کر نا پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہا ں بھی اس کو خواری کے علاوہ کچھ نہ ملے گا۔ ہم سے ہر شخص یہ چا ہتا ہے کہ دوسرے اس کے ساتھ مخلص ہو ں ۔ اسی طر ح دوسروں کی بھی یہی خواہش ہو تی ہے کہ ہم اس کے ساتھ مخلص ہو ں ۔
