Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

یقین کامل

یقین کامل

یقین کامل


"پرندہ پروں سے نہیں اڑتا بلکہ یقین سے اڑتا ہے"

یقین کامل کی ماضی میں کئی  کامیاب مثالیں ملتی ہیں ۔تاریخ کے اوراق میں ایسے کئی تاریخی کامیابیوں کے قصے مذکور ہیں جن کی بنیاد یقین کا مل پر تھی۔ کامیابی کی سب سے بنیادی کڑی یقین کامل ہی ہے ۔ اس کی چھوٹی سی مثال حاضر خدمت ہے ۔

 کسی شہر میں ایک شعلہ بیان خطیب جمعے کا خطبہ دیا کر تے تھے۔ ان کے خطبے کی دھو م دور دور تک مچی ہو ئی تھی ۔وہ اپنی فصاحت و بلا ؑت سے لو گو ں کے دل مو ہ لیتے اور ان کو مسحو ر کر کے یقین اور ایمان کی دولت سے سرشا ر کر دیتے ۔ ایک دیہا تی بہت ذوق و شوق سے ان کا خطبہ سننے آتا۔ اس کا گاؤں شہر سے کا فی دور تھا ۔ راستے میں ایک دریا پڑتا تھا۔ کشتی کے انتظار اور دریا عبور کر نے میں اسے کئی گھنٹے لگتے۔ چنا نچہ جمعے کے دن وہ منہ اندھیرے گاؤں سے روانہ ہو تا۔ ایک دن خطیب نے خطبہ دیتے ہو ئے فرمایا کہ اگر انسان کا خداپر پورا یقین ہو تو وہ کلمہ پڑھ کر ہر کا م کر سکتا ہے ۔ حتیٰ کہ اگر وہ کلمہ پڑھ کر دریا میں اتر جا ئے تو دریا بھی اس کے لئے راستہ بنا دیتا ہے ۔ دیہا تی کو خطیب کی ہر بات پر یقین کا مل تھا ۔ وہ خو ش تھا کہ اب اسے کشتی کا انتظار نہ کر نا پڑے گا بلکہ وہ کلمہ پڑھتے ہو ئے آسانی کے ساتھ دریا پا ر کر لیا ۔ اب وہ ہر جمعے کو کلمہ پڑھتے ہو ئے دریا پا ر کر لیتا اور خطیب کو ڈھیروں دعائیں دیتا۔ اس کے دل میں خطیب کی عقیدت اور محبت کا دریا جو ش ما رنے لگا اور اس نے خطیب کو اپنے گاؤں کھانے کی دعوت پر بلا یا ۔ خطیب نے عقیدت مند کی دعوت قبول کر لی اور جمعے کی نما ز کے بعد دونوں گاؤں کی طر ف روانہ ہو ئے ۔ دریا کے قریب پہنچے تو وہاں کوئی کشتی مو جو د نہ تھی۔ خطیب نے پو چھا کہ کشتی کب تک آئے گی ۔ دیہا تی نو جو ان نے کہاکہ مولا نا صا حب کشتی کی کیا ضرورت ہے ۔

آئیے کلمہ پڑھتے ہو ئے دریا پار کر لیتے ہیں ۔ یہ کہتے ہو ئے دیہا تی تو کلمہ پڑھتے ہو ئے دریا میں اتر گیا مگر خطیب نے یہ کہہ کر انکا ر کر دیا کہ پا نی گہر ا ہے اور کشتی کا انتظار کر نے لگے ۔ دیہا تی کو خطیب کی بات پر پورا یقین تھا لہٰذا وہ پا نی میں اتر گیا مگر خطیب بے بدل کو اپنی ہی باتوں پر یقین نہ تھا ۔


کامیابی اور نا کامی یقین سے شروع ہو تی ہے ۔ یقین کا مل ہی کا میابی کی کنجی ہے ۔ کوئی بھی چیز حا صل کر نے سے پہلے ضروری ہے کہ آپ کو یقین ہو کہ آپ اسے حا صل کر سکتے ہیں ۔ آپ کی زندگی وہی کچھ ہے جو آپ یقین کر تے ہیں ۔ لہٰذا گول حا صل کر نے کے لئے آپ کو یقین ہو نا چا ہیے کہ آپ اسے حاصل کر سکتے ہیں (Believe to Succeed)  ۔لہٰذا گو ل حا صل کرنے کے لئے آپ کو یقین ہو نا چا ہیے کہ آپ اسے حا صل کر سکتے ہیں ، کیوں کہ آپ جیسا یقین کر تے ہیں ویسے ہی ہو جا تے ہیں ۔

بار بار کے تجربات سے ثا بت ہو چکا ہے کہ پہلا انعام "ذہین " کو نہیں بلکہ "یقین "کو ملتا ہے ۔ لہٰذا یقین کر یں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے آپ ہر چیز کر سکتے ہیں ، حاصل کر سکتے ہیں ۔ ہر اچھے کا م میں اللہ تعالیٰ کی مد د شا مل ہو تی ہے ۔ آ پ جو کچھ کر رہے ہیں اگر آپ کو اس میں کا میا بی کا مکمل یقین نہیں ، معمولی سا بھی شک ہے تو وہ کا م ہر گز نہ کر یں ، آپ یقینا ًنا کا م ہو جا ئیں گے ۔ آپ جس چیز کی تو قع کر تے ہیں وہی حا صل کر تے ہیں ۔ اگر آپ معجزے کی توقع کر یں گے تو آپ کا دما غ اس معجزے کے لئے کا م کر نا شروع کر دے گااور آپ وہ معجزہ کر دکھائیں گے ۔ کامیابی کے لئے اونچے خواب اور سخت محنت کے علا وہ کچھ اور بھی درکا ر ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ فرد کو اپنے آپ پر ، اپنی صلا حیتوں پر ، خواہشات ، گولز اور اپنی کا میابی پر یقین ہو ۔ جدید نفسیا ت کہتی ہے کہ اگر آپ کو اپنے آپ پر اور اپنے گولز پر یقین ہے تو آپ کا دما غ ایک محر ک (Motivator)   ہو گا جو کسی بھی خواہش کے حصول کی کلید ہے ۔ دنیا ان کے لئے ہی ہے جن کو اپنے آپ پر یقین ہو تا ہے ۔ جب آپ کو یقین ہو کہ آپ کر سکتے ہیں تو بسم اللہ کر یں ۔ دنیا میں کو ئی چیز بھی نا ممکن نہیں ، اگر آپ کو اس کے حصو ل کا یقین ہو تو یقین پہاڑ کو بھی ہٹا سکتا ہے ۔ تاہم بغیر عمل کے یقین کامل بھی بے کا ر ہے ۔


آپ کا یقین (Belief)   آپ کے مستقبل کے نتائج کے حوالے سے توقعات پیدا کر تا ہے ، آپ کی توقعات آپ کے رویے کا تعین کر تی ہیں اور آپ کا رویہ آپ کے کر دار (Behaviour)  کا تعین کر تا ہے ۔ پھر آپ کا میا ب یا نا کا م ہو جا تے ہیں ۔ توقعات کی بنیا د حقائق نہیں ہو تے بلکہ صر ف یقین ہو تا ہے ، جو قبول کر لیا جا تا ہے ۔ تما م لو گ، بچے اور بڑے ویسے ہی بن جا تے ہیں جیسی ان سے توقع کی جا تی ہے ، لہٰذا توقعات کے حوالے سے محتا ط رہیں کیوں کہ آپ جس چیز کی توقع کر تے ہیں غالب امکا ن یہی ہے کہ ویسا ہی ہو جا ئے گا۔ کا میا ب لو گ مثبت توقع رکھتے ہیں ، جب کہ نا کا م لو گ منفی توقع رکھتے ہیں ۔ غا لبا ً سب سے اچھی چیز جو آپ کسی کے لئے کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ کہیں "مجھے آپ پر یقین ہے ، اعتما د ہے ۔ مجھے علم ہے کہ آپ یہ کر سکتے ہیں ۔"

توقع کے سلسلے میں معروف امریکی مصنف نا رمن پیلے نے ایک بہت حیران کن تجربہ کیا ۔ نا رمن اور اس کے نو دوست ایک ریسٹورنٹ میں اکٹھے ہو ئے ۔ انہوں نے طے کیا کہ ان میں سے ہر ایک اپنی اگلے سا ل کی کا میابیوں کے بارے میں اپنی توقعات کو کا غذ پر لکھے۔ ان سب کو علیحدہ علیحدہ لفافے میں بند کر کے سیل کر دیا گیا ۔ ہر لفافے پر متعلقہ فرد کا نا م لکھ دیا گیا ۔ ٹھیک ایک سا ل بعد سارے دوست پھر اسی ریسٹورنٹ میں اکٹھے ہو ئے ۔ ایک دوست کسی وجہ سے شا مل نہ ہو سکا ۔ ہر فر د کی توقعات کا جا ئزہ لینے کے لئے لفا فے باری باری کھولے گئے ۔ تقریباً ہر فر د نے اپنی تحریری توقعات (Expectation)   کے مطابق 90 فی صد کا میابیا ں حا صل کر لی تھیں ۔ جب دسویں دوست کا لفافہ کھولا گیا تو اس میں ایک عجیب با ت درج تھی جو کہ 100 فی صد پو ری ہو ئی تھی ۔ دسویں فر د نے لکھا تھا کہ "ہمارے خاندان میں مردوں کی عمریں زیا دہ لمبی نہیں ہوتیں ۔ میرا خیا ل ہے کہ میں اگلے سال تک زندہ نہ رہو ں گا۔" اور وہ فو ت ہو چکا تھا ۔

اسی طر ح ہم زندگی میں ایک ، دو بار ہی نا کا م ہو نے کے بعد یقین کر لیتے ہیں کہ ہم کا میا ب نہ ہو ں گے اور ہم ہمیشہ کے لئے ہار ما ن لیتے ہیں حا لا نکہ نا کا می  ہی کا میا بی کی پہلی سیڑھی ہے ۔ لہٰذا ہمیشہ بہتر ین کی تو قع کر یں ۔ کبھی بدترین کی توقع نہ کر یں ۔ کا مل یقین کے ساتھ معجزے کی توقع کریں گے تو ہی معجزے رونما ہو ں گے ۔ اس بات کو ہر وقت اپنے ذہن میں رکھیں کہ یقین ہی ہر چیز کو ممکن اور نا ممکن بنا تا ہے ۔