بخل اور سخاوت |
انسانی شخصیت بعض اوقات جن بیما ریوں کا شکا ر ہو جا تی ہے
، ان میں سے ایک بخل ہے ۔ اس کا بالکل برعکس سخا وت ہے ۔ بخل کا معنی ہے کہ اللہ
تعا لیٰ نے جو نعمتیں با لخصو ص ما ل و دولت انسان کو عطا کی ہیں وہ انہیں استعما
ل کر نے میں کنجوسی کا مظا ہر ہ کر ے اور جہا ں انہیں خرچ کر نا ضروری ہو، وہاں
خرچ کر نے سے گریز کرے ۔ مثلا ًایک شخص انتہا ئی دولت مند ہونے کے با وجو د پھٹے
پرانے کپڑے پہنتا اور اپنے بچوں کو بھی اس پر مجبور کر تا ہے یا روکھا سوکھا کھا
تا ہے تو یہ بخل ہے ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے اسی بات کی تعلیم دی ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے جو نعمتیں انسان کو دی ہیں ، ان کے اثرات اس کی شخصیت پر بھی ظا ہر ہو نے چا
ہییں۔ بخل کی ایک بڑی مثال اس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب ہم ضرورت مندوں کی مدد کر
تے ہیں ۔ اگر ہمارے پا س کو ئی حقیقی ضرورت مند آجائے تو اسے کچھ وقت ہمیں اپنی
تما م ضروریا ت یا د آجا تی ہیں لیکن اپنی عیا شیوں کے وقت ہم کوئی نہ کوئی جواز
ضرور گھڑ لیتے ہیں ۔ اگر ہم کسی ضرورت مند کی مدد کر بھی دیں تو ہما ری یہ خواہش
ہو تی ہے کہ وہ سا ری عمر ہمارے احسان کے بوجھ تلے دبا رہے اور ہمارا غلا م بن کر
رہے ۔
دین ہمیں انتہا پسندی کے ان رویوں سے بچ کر ہمیں اعتدال کی
راہ اپنا نے کی تلقین کرتا ہے ۔ جہاں خر چ کر نا چا ہیے وہاں خرچ نہ کر نا بخل ہے
اور جہا ں خرچ نہیں کر نا چا ہیے ، وہاں خرچ کر نا اسراف ہے ۔ سخاوت اور دریا دلی
اس کا نا م ہے کہ جہا ں خرچ کرنا چا ہیے وہاں انسان خرچ کر نے سے نہ گھبرائے بلکہ
دل کھول کر خرچ کر ے اور اسراف سے ہر صورت میں بچے۔
