دنیا میں اگر آپ کے دشمن بھی ہیں اور وہ آپ کو ہمیشہ نیچا دکھانے یعنی کہ آپ کی نا کامی کے لئے کو شاں ہیں تو پھر تو آپ کو نا کامی سے کبھی بھی گھبرانا نہیں چا ہیے بلکہ ایک نا کامی کے بعد دوبارہ نئے ولولے اور جو ش کے ساتھ ہمت باندھیں اور شروع ہو جا ئیں کیونکہ کا میابی کئی نا کا میوں کے بعد حوصلہ اور ہمت نہ ہا رنے کا نا م ہے ۔ اگر آپ بھی کا میابی چا ہتے ہیں تو پہلے کامیاب لو گوں ، کامیاب قوموں کا مطالعہ کر یں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ انہوں نے کامیابی کے لئے کیا حکمت عملی اپنائی ۔ بلا شبہ کامیابی حا صل کر نے کے لئے کچھ علو م و فنون اپنے دشمنوں سے بھی سیکھنے پڑتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی مثال جاپان ہے جس نے دوسری جنگ عظیم میں نا کامی اور امریکہ کے جبری تسلط کے باوجود صرف 40 سال کے قلیل عرصہ میں اقتصادی میدان میں امریکہ اور اس جیسے طاقتور ملکوں کو ان ہی کے دئیے ہو ئے اصولوں کو اپنا کر شکست دی اور ماہرین اقتصادیا ت و معاشیات کو حیران و پر یشان کر دیا۔
دوسری جنگ عظیم میں جاپان
کا بے تحا شا نقصان ہوا۔امریکہ نے جاپان کے دوشہروں ہیروشیما اور نا گاساکی کو
ایٹمی حملے کا نشانہ بھی بنا یا جس سے جا پان کی معیشت گھٹنوں پر آ گئی۔ جنگ کے
خاتمے پر جا پان نے صنعتی میدان میں بے
انتہا محنت کر کے صرف 40 سال میں اپنا کھویا ہوامقام اور وقار دوبارہ حا صل کر لیا
اور امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کو اس میدان میں بہت پیچھے چھوڑدیا ۔
جاپان کے ایک صنعت کا ر
کے مطابق انہوں نے اپنی صنعتی پیداوار کو عالمی منڈی میں نمبر 1 پر لا نے کے لئے 1949ءمیں کئی
صنعتی سیمینا ر کئے ۔ ان سیمینارز میں انہوں نے کئی امریکی صنعتی ماہر ین کو بھی
دعوت نا مے بھیجے۔ ان ہی سیمینا ر ز میں انہوں نے امریکہ کے ایک ڈاکٹر ایڈورڈ
ڈیمنگ (Dr Edward Deming) کو خصوصی دعوت نا مہ بھیج
کر بلا یا ۔ ڈاکٹر ڈیمنگ نے اپنے لیکچر میں اعلیٰ صنعتی پیداوار کا ایک نیا نظر یہ
پیش کیا ۔ یہ کو الٹی کنڑول (Quality
Control) کا نظریہ تھا۔
جاپان کے لئے امریکہ کے
لو گ دشمن قوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جا پان کو بدترین
شکست اور ذلت سے دوچار کیا تھا ۔ اس اعتبار سے ہو نا تو یہ چا ہیے تھا کہ جا
پانیوں کے دل میں نفرت کی آگ بھڑکے ۔ مگر جا پانیوں نے اپنے آپ کو اس قسم کے منفی جذبات
سے اوپر اٹھا لیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لئے یہ ممکن ہو ا کہ وہ امریکی پروفیسر ز
کو اپنے سیمینارز میں بلا ئیں اور اس کے بتا ئے ہو ئے طریقہ کا ر پر ٹھنڈے دل سے
غور کر کے اس کو دل و جا ن سے قبول کر لیں ۔
جاپانیوں نے امریکی
پروفیسر کی بات کو پوری طرح اپنے پلے با ندھ لیا ۔ انہوں نے اپنے پورے صنعتی نظا م
کو کو الٹی کنٹرول کے تحت چلا نا شروع کر
دیا ۔ انہوں نے اپنے صنعت کا روں کے سامنے
بے نقص (Zero defect) کا نشانہ رکھا ۔ یعنی ایسی پیداوار مارکیٹ میں
لا نا جس میں کسی قسم کا کوئی نقص نہ پا یا جا ئے ۔ جا پا نیوں کی سنجیدگی اور ان
کا ڈیڈیکیشن (Dedication)
اس بات کا ضا من بن گیا کہ یہ مقصد پوری طر ح
حا صل ہو ۔
جلد ہی ایسا ہوا کہ جا پا
نیوں کے کا رخا نوں نے اپنا ٹا رگٹ حا صل کر لیا اور وہ بے نقص سامان تیا ر کر نے
لگے ۔ یہاں تک کہ یہ حا ل ہوا کہ برطانیہ کے ایک تاجر نے کہا کہ جا پا ن سے
اگر میں ایک ملین کی تعدا د میں کوئی سامان منگواؤں تو مجھ کو یقین ہوتا ہے کہ ان
میں کوئی چیز بھی نقص والی نہیں ہو گی ۔ چنا نچہ تما م دنیا میں جا پا ن کی پیدا
وار پر سو فی صد بھر وسہ کیا جا نے لگا ۔
آنے والے چند ہی سالوں
میں یہ ہوا کہ جا پان کی تجا ر ت بہت زیا دہ بڑھ گئی ۔ حتیٰ کہ وہ خود امریکہ کے
بازا ر پر چھا گیا جس کے ایک ما ہر کی تحقیق سے اس نے کوالٹی کنڑول کا مذکورہ نسخہ
حا صل کیا تھا ۔
اس دنیا میں بڑی کا میا
بی حا صل کر نے کے لئے ضروری ہے کہ ہر ایک سے سبق سیکھنے کی کو شش کر یں اور
اچھاسبق یا نیکی کا درس جس سے بھی سنا جا ئے پلے باندھ لیا جا ئے چاہے وہ دوست ہو
یا دشمن ۔
