| علم اور عمل |
؎ "عمل سے زندگی بنتی ہےجنت بھی جہنم بھی
یہ خا کی اپنی
فطر ت میں نہ نو ری ہے نہ نا ر ی ہے"
علم اور عمل ایک کا میا ب انسان کے لئے لا زم و ملزوم ہیں ۔ کیوں کہ علم بغیر عمل کے بے کا ر ہے ۔ آپ اپنے علم پر عمل کر کے ہی اپنی دنیا و ی و اخروی زندگی کو کا میا ب و کا مران بنا سکتے ہیں ۔ آج ہما ری نو جوان نسل کے پا س علم اور ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے لیکن ان کو اپنے علم کو عمل میں ڈھا لنے کے لئے کسی پلیٹ فارم کے سہا رے کی ضرورت ہے ۔جس کے ذریعے سے وہ اپنے علم سے استفادہ کر تے ہوئے عمل کے میدان میں آبیا ری کر سکیں ۔ ہمارے ملک جیسے ترقی پذیر اور قرض میں ڈوبے ہو ئے ملکوں میں ایسے پلیٹ فارم یا ذرائع بہت کم ہیں جن سے نو جو ان نسل فائدہ اٹھا سکے تو لہٰذا یہاں پر نو جوان نسل کے لئے ایک کڑی آزمائش ہے کہ وہ کس طر ح خود ہی اپنے علم کی روشنی سے اپنے اردگر د موجو د کئی چھوٹے چھو ٹے ذرائع کو اپنے تصرف میں لا کر اپنے آج اور کل کو بدل سکیں ۔ اگر آپ چا ئنا جیسی بڑ ی معیشت کا مطا لعہ کر یں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ انہوں نے کس طر ح چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کو ذرائع(Sources) کے طور پر اپنا یا اور آج وہ اسی ذریعہ کو استعما ل کر کے پوری دنیا کی ضرورتیں سستے داموں پوری کر رہے ہیں ۔
علم اپنی اصل میں ایک بحر بیکراں ہے اور انسانی علم اس میں تیرتے ہو ئے ایک بجرے
(بیڑے) کی ما نند ہے ۔ عمل کے بغیر اس کی قسمت میں سا حل مراد نہیں۔وہ علم جس پر
عمل نہ کیا جا ئے ، انسان کے خلا ف ایک فرد جر م بن جا تا ہے ۔ علم حاصل کر نا فرض
ہے تو اس پر عمل کر نا واجب ہے ۔ واجبات ترک کر دئیے جا ئیں تو نوافل کا م نہیں
آتے ۔ علم پر عمل کر لیا جا ئے تو علم ایک اثاثہ بن جا تا ہے وگرنہ واجبات بلکہ
واجب الادا قرضہ جا ت۔
علم اور عمل دوتوام حقیقتیں ہیں۔ ان میں سے ایک کی نفی کر
دی جا ئے تو دوسری حقیقت بھی آشنا ئے دوام نہیں ہوتی ۔ علم جب تک عمل سے واصل نہ
ہو وجود پر وارد نہیں ہو تا اور جب تک وجود پر وارد نہ ہو ، قابل بیا ن نہیں ہو تا
اور جب تک قابل بیان نہ ہو دوسروں کے لئے قابل عمل نہیں ٹھہرتا۔ دراصل علم صرف
زبان حال سے بیا ن ہو تا ہے ۔
عمل کے بغیر علم ایسے ہی ہے جیسے کسی ریستوران کی سیڑھیوں
پر رکھے ہو ئے پلاسٹک کے گملوں میں کا غذکے گلا ب ، راہ چلتے لو گوں کی نظر
لبھائیں ، لیکن ما حول کو خوشبودار نہ کر پا ئیں ۔
علم اور عمل میں وہی تعلق ہے جو پھول اور خوشبو میں ہو تا ہے ۔وہ علم جس پر عمل نہ ہو محض معلومات کا خزانہ ہے ۔ ایسے خزانے انسانی دما غوں سے کہیں زیا دہ بہتر اور منظم طور پر لا ئبریریوں اور کمپیوٹروں میں محفوظ ہو تے ہیں ۔ درحقیقت علم وہی ہے جو وجود پر وارد ہو جا ئے اور یہی وہ علم ہے جو وجود کو جمو د سے نکا ل کر وجد میں داخل کر دیتا ہے ۔
ایک بے سمت اور بے مصرف ذہنی مصروفیت کا نا م علم نہیں !حصو
ل علم کاایک مقصد حا ضر و مو جو د سے نجا ت بھی ہے ۔ ایک صا حب علم کو خود سے نجا
ت کا علم بھی آنا چا ہیے ۔ وہ علم جو وجو د کی کشش سے نجا ت نہ دے سکے اس سے نجات
پا نے کی دعا کر نی چا ہیے ۔ وہ علم جو انسان کو لطا فت کی بہشت سے نکا ل کر کثا
فت کی زمین پر ہبوط کر دے اس پر توبہ واجب ہے کہ یہی وہ علم ہے جو نفس پر ظلم ایجا
د کر تا ہے ۔ علم خودشنا سی بھی ہے اور خوداحتسابی
بھی۔ستم یہ ہے کہ ہما را سارا "علم "اپنی مہلت عمل سمیت دوسروں
کے اعمال کا احتساب کر نے میں صرف ہو جا تا ہے ۔ یو ں زندگی خرچ ہو جا تی ہے اور
خاطر تک جمع نہیں ہو پا تی!دن کی روشنی کا علم اگر ہما ری را ت میں چراغاں نہ کر سکے
تو روشنی کا علم کس کام کا۔
جب انسان اپنے علم پر عمل نہیں کر تا تو وہ علم دینے والے سے بے وفائی کا مر تکب ہو تا ہے ۔ بے عمل انسان وقت کے رحم و کر م پر ہو تا ہے با عمل شخص وقت کے اسی سیل رواں کو مو ڑ دیتا ہے ۔ پیہم عمل کر نے والی قومیں وقت کے تیز دھا رے کو آبشاروں ، جھیلوں اور ندیوں کی شکل دے کر جہان رنگ و بو میں رنگا رنگ گلکاریاں پیدا کر دیتی ہے ۔ بے عمل قوم ہر سال کسی سیلا ب بلا کا شکا ر ہو تی ہے ۔
علم کے بعد بے عملی دراصل اپنے ہی
علم پر بے یقینی کا اعلا ن ہے ۔ علم پر یقین نہ ہو تو عمل کی طر ف قدم نہیں اٹھتا
۔ عمل کی شا ہراہ پر چلنے والے اپنے علم کو عین یقین کی آنکھ سے دیکھ لیتے ہیں اسے
مشا ہد ہ کہتے ہیں ۔ مشا ہدے کے بعد مجا ہدے میں مداومت کا عمل صرف دو قدم ہے ۔ اس
طریق پر چلنے والے مسا فر چلتے چلتے خود سنگ میل کی صورت ہو جا تے ہیں جنہیں دیکھ
کر قافلے اپنا قبلہ درست کر تے ہیں اور نئے سرے سے ہمت با ندھتے ہیں۔
انسان کو علم اس لئے دیا گیا ہے کہ
وہ فنا سے بقا کی طر ف ہجرت کر سکے ۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرما تے ہیں "اگر
علم کا مدعا خوشنودی خلق ہے تو حجاب اور اگر علم کا منشا ء رضا ئے حق ہے تو نو ر بلکہ
نورعلیٰ نور ۔"
وہ علم جو نو ر کی طر ف راہنمائی
نہ کر سکے اس میں گھرے ہو ئے شخص کی مثا ل ازروئے سورۃنور ایسی ہے جیسے ما دیت کے
بحر ظلما ت میں گہری اندھیر ی رات اور اس میں طغیا نی کی منہ زور مو جیں کہ اگر کو
ئی شخص اپنا ہا تھ با ہر نکا لے تو اسے اپنا ہا تھ خو د بھی دکھا ئی نہ دے ۔
ایک دنیا دار آدمی اس لئے علم حا
صل کر تا ہے کہ لو گوں کو مر عوب کر سکے ۔ لو گ دولت اور حکو مت سے بھی خلق خدا کو
مر عوب کر تے رہتے ہیں ۔ ایسے لو گوں کو جا ہل کہا جا تا ہے وہی عام سے کا م جو لو
گ دولت اور حکو مت سے کر تے رہتے ہیں اگر علم کو ذریعہ بناتے ہو ئے کئے جا ئیں تو
یہ بھی جہا لت کا ہی ایک درجہ ہے ۔
مو جو دہ دور کے علم طب کی مثا ل
ہی لے لیں یہ معالجین کو صر ف بیما ریوں کی تشخیص کر نے اور ادویا ت تجویز کرنے کا
لا ئسنس ہی فراہم کر تا ہے انہیں مر یضوں سے ہمدردی کی تعلیم نہیں دیتا۔بیماروں سے
زیا دہ بیما ریوں میں دلچسپی لینے والا معالج شفا کے تصور سے نا آشنا ہے ۔ معالج
کا اخلا ص اور اخلا ق ہی مریض کے شفا کی نو ید ہو تی ہے ۔ امیر اور غریب مریض میں
تفریق کر نے والا صرف دولت جمع کر نے میں مصروف ہے ۔ نجی ہسپتا ل گو یا نجی بینک
کا نقشہ پیش کر تے ہیں ۔ بینکو ں کی طر ح ان کا عملہ امیر کلا ئنٹس کے سامنے بچھ
بچھ جا تا ہے ابھی آپ اس کو خدمت کہیں گے یا کا روبار اور اگر کوئی غریب ان کے
ہتھے چڑھ جا ئے تو اس کا خون نچوڑ لیا جا تا ہے ۔
اسی طر ح فنی تعلیم بھی محض ایک
ہنر ہے ۔ ہنرمند افراد جب تک خدمت کا ہنر نہیں سیکھتے ان کی ہنر مندی نو سر بازی
کی ایک ترقی یا فتہ شکل بن جا تی ہے ۔ علم جب تک قربانی دینے کا ہنر نہ سکھائے
منفعت بخش نہیں ہو تا نہ اپنے لئے نہ مخلو ق خدا کے لئے جو علم رب کی طر ف سے آئے
گا وہ مخلو ق کی ربوبیت کر ے گا ۔
اسی لئے مشہو ر قول ہے کہ "علم
کے بعد بے عملی علم پر یقین کم کر دیتی ہے ۔ "
علم کے بعد عمل کو یقینی بنا ئیں اور دنیا وی و اخروی زندگی کو کا میا ب بنائیں۔
