![]() |
| امید کا پیغام |
اللہ تعالیٰ نے قرآن کر یم میں کئی ابواب میں انبیائے کرام علیہ السلام اور اپنے پیارے لو گوں کی ظاہر ی یعنی انسانی صورت میں مشکلات کاذکر کر
تے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی نا موافق صورت پیش آئے تو "صبر اور توکل
اختیا ر کر و"کیوں کہ" اللہ تمہا ر ا نگہبان ہے ، وہ تمہا رے لئے
مشکل کے بعد آسانی پیدا کر دے گا۔" (سیجعل اللہ بعد عسرایسرا)۔
قرآن کر یم نہ صرف ہم مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری دنیا کے
لئے ہدایت و کا میا بی کا سرچشمہ ہے ۔ جس طر ح زمین مسلسل گردش کر رہی ہے ، اسی طر
ح انسان کے حالات بھی برابر بدلتے رہتے ہیں ۔ انسا ن کو چا ہیے کہ وہ کسی بھی حا ل
میں ما یوس نہ ہو۔ ہمیشہ نا امیدی پر امید کے پہلو کو غالب رکھے ۔ حا ل کی بنیا د
پر وہ کبھی مستقبل کے بارے میں اپنے یقین کو نہ کھوئے ۔
اس کی سب سے روشن مثا ل ہے کہ رات کے آنے کو اگر "آج" کے لحاظ سے دیکھا جا ئے تو وہ اندھیرے کا آنا معلو م ہو گا۔ مگر "کل" کے لحاظ سے دیکھئے تو وہ روشن صبح کے آنے کی تمہید بن جا تا ہے ۔ خزاں کا مو سم بظا ہر پت جھڑ کا مو سم دکھائی دیتا ہے ۔ مگر مستقبل کی نظر سے دیکھئے تو وہ بہار کے سرسبز و شا داب مو سم کی خبر دینے لگے گا۔
یہ قدرت کا اٹل قانون ہے ۔ یہ قانون عام ما دی دنیا کے لئے
بھی ہے اور اسی طر ح انسانوں کی زند ہ دنیا کے لئے بھی۔ اس میں کبھی کو ئی تبدیلی
ہو نے والی نہیں ۔ جب دنیا کی تخلیق اس ڈھنگ پر ہو ئی ہے تو کوئی انسان اس دنیا
میں ما یو س کیوں ہو ۔ جب یہا ں ہر تا ریکی آخرکا ر روشنی بننے والی ہے تو وقتی
مشکل حا لا ت سے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے ۔
انسان اگر یہا ں کسی مشکل یا مصیبت میں پھنس جا ئے تو اس کو
چا ہیے کہ وہ صبر اور حکمت کے سا تھ اس سے نکلنے کی کو شش کر ے ، کیوں کہ بحثیت
مسلما ن ہمیں تو قرآن پاک میں بارہا اس با ت کی تلقین کی گئی ہے ۔ اگر بالفرض اس
کے پا س جدوجہد کر نے کے طاقت نہ ہو تب بھی اس کو چا ہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر
توکل کر تے ہو ئے آنے والے کل کا انتظا ر کرے ۔
اس دنیا میں جس طر ح محنت ایک عمل ہے ، اسی طر ح انتظا ر
بھی ایک عمل ہے ۔ جو شخص عمل کا ثبوت نہ دے سکے ، اس کو چا ہیے کہ وہ انتظا ر کا
ثبوت دے ۔ اگر اس نے سچا انتظار کیا تو عین ممکن ہے کہ وہ انتظار اور صبر کے ذریعہ سے اس چیز کو پا لے جس کو
دوسرے لو گ محنت کے راستہ سے تلا ش کر نے میں لگے ہو ئے ہیں ۔ قدرت کا نظا م خو د
اپنے آخر ی فیصلہ کو ظہو ر میں لا نے کے لئے سر گرم ہے ، بشر طیکہ آدمی مقررہ وقت
تک اس کا انتظا کر سکے ۔
عربی کا ایک مقولہ ہے کہ "بہت سی نقصان والی چیزیں
نفع دینے والی ہو تی ہیں "۔یہ قول نہا یت با معنی ہے ۔ وہ زندگی کی ایک
اہم حقیقت کو بتا تا ہے کہ اس دنیا میں کو ئی نقصان صرف نقصان نہیں ۔ یہا ں ہر عسر
کے ساتھ یسر ہے ۔ یہا ں ہر نقصان کے ساتھ ایک فائدہ کا پہلو لگا ہوا ہے ۔ آدمی کو
چا ہیے کہ اس کو نقصان پیش آئے تو وہ ما یوس ہو بیٹھ نہ جا ئے ، بلکہ اپنے ذہن کو
سوچ کے رخ پر لگائے ۔ عین ممکن ہے کہ وہ ایسا امکا ن تخلیق کر نے میں کا میا ب ہو
جا ئے اور اس کامیا بی کے راز کو دریافت کر لے جو نہ صرف اس کے نقصان کی تلا فی
کرے بلکہ اس کو مزید اضافہ کے ساتھ کامیا ب بنا دے ۔
ہمارے معاشر ے میں ایک مشہو ر کہا وت ہے کہ "ایک در
بند تو
سو درکھلا"۔ اس کا آسان مطلب یہ ہے کہ قدرت جب انسان پر کامیابی
کا ایک دروازہ بند کرتی ہے تو سو دروازے کھول دیتی ہے ۔ اب یہ اس انسان کی
محنت اور لگن پر منحصر ہے کہ وہ کتنی کا
میابیا ں حا صل کر تا ہے ۔
زندگی کے امکا نات کی کو ئی حد نہیں ۔ ہر بار جب ایک امکا ن
ختم ہو جا تا ہے تو وہیں زیا دہ بڑا امکا ن مو جو د رہتا ہے ۔ پھرکوئی انسان ما
یوس کیو ں ہو اور نقصان پر فریا دو احتجا ج کیو ں کر ے ۔ کیوں نہ وہ نئے امکا ن کو
استعما ل کرے جو اس کی شا م کو دوبا رہ ایک روشن صبح میں تبدیل کر دینے والا ہے ۔
انسان کو چا ہیے کہ جب ایک امکا ن کا سرا اس کے ہا تھ سے
نکل جا ئے تو وہ کھوئی ہو ئی چیز کا ڈھنڈورا پیٹنےاور افسوس کرنے میں وقت ضا ئع نہ
کرے بلکہ دوبارہ اپنی قوت کو مجتمع کر ے ایک نئے ولولہ اور جنون سے کوئی اور ممکنہ
امکا ن دریا فت کر ے اور اس کا استعما ل شروع کر دے ۔ عین ممکن ہے کہ اس تدبیر کے
ذریعے وہ پہلے سے بھی زیا دہ بڑی کا میابی حا صل کرلے ۔ اور اگرمحنت شامل حال ہو
تو کامیابی یقینی ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ تو کسی کی محنت نہیں رکھتا ۔ اسی لئے امید کا دامن کبھی بھی نہ چھوڑیں۔

