![]() |
| حضرت مو لا نا محمد جلا ل الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ |
محمد جلا ل الدین رومیؒ (پیدائش 1207ء ۔انتقال 1273ء)مشہور
فارسی شاعر تھے ۔ اصل نا م جلا ل الدین تھا لیکن مولا نا رومیؒ کے نا م سے
مشہورہوئے ۔ جواہر مضئیہ میں سلسلہ نسب اس طر ح بیا ن کیا ہے "محمد بن محمد
بن حسین بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ا بی
بکرالصدیق"۔ اس روایت سے حسین بلخی مو لا نا رومیؒ کے پردادا ہو تے ہیں ۔
لیکن سپہ سا لا ر نے انہیں دادا لکھا ہے اور یہی روایت صحیح ہے کیوں کہ وہ سلجوقی
سلطان کے کہنے پر انا طولیہ چلے گئے تھے جو اس زما نے میں روم کہلا تا تھا۔ ان کے
والد بہا ؤالدین بڑے صا حب علم اور فا ضل بزرگ تھے۔ ان کا وطن بلخ تھا اور یہیں
مولا نا رومی ؒ1207 عیسوی بمطابق 604 ہجری میں پیدا ہو ئے ۔
تعلیم و تربیت
ابتدائی تعلیم کے مراحل شیخ بہا ؤالدین ؒنے طے کر ا دئیے
اور پھر اپنے مرید سید برہا ن الدین ؒ کو جو اپنے زما نے کے فا ضل علما ء میں شما
ر کئے جا تے تھے مولا نا کا معلم اور اتا لیق بنا دیا ۔ اکثر علوم مو لا نا کو
انہی سے حا صل ہو ئے ۔ اپنے والد کی حیات تک ان ہی کی خدمت میں رہے ۔ والد کے
انتقال کے بعد 639ہجری میں شام جا نے کا فیصلہ کیا ۔ ابتدا میں حلب کے مدرسہ حلا
ویہ میں رہ کر مو لا نا کما ل الدین ؒ سے شرف علم حا صل کیا ۔
علم و فضل
مو لا نا رومی ؒ اپنے دور کے اکا بر علما ء میں سے تھے۔ فقہ
اور مذاہب کے بہت بڑ ے عالم تھے ، لیکن آپ کی شہر ت بطور ایک صوفی شا عر کے ہو ئی۔
دیگر علوم میں بھی آپ کو پوری دسترس حا صل تھی ۔ دوران طا لب علمی ہی پیچیدہ مسائل
میں علما ئے وقت مولا نا رومی ؒ کی طر ف رجو ع کر تے تھے۔ حضرت شمس تبریز ؒ مو لا
نا رومی ؒکے پیر و مر شد تھے ۔ مو لا نا رومی کی شہر ت سن کر سلجوقی سلطان نے
انہیں اپنے پا س بلوایا۔ مو لا نا نے درخواست قبول کی اور قونیہ چلے گئے ۔
اولا د
مو لا نا رومی ؒ کے دو فرزند تھے ۔ علا ؤ الدین محمد اور سلطان ولد۔ علا ؤالدین محمد کا نا م صرف اس
کا رنامے سے زندہ ہے کہ انہوں نے حضرت شمس تبریزؒ کو شہید کیا تھا۔ سلطان ولد جو
فرزند اکبر تھے ، خلف الر شید تھے، گو مولا نا رومی ؒ کی شہر ت کے آگے ان کا نا م
روشن نہ ہوسکا لیکن علوم ظاہر ی و باطنی میں وہ یگانہ و روزگار تھے ۔ مو لا نارومی
ؒ کی خا ص تصنیفات میں سے خا ص قابل ذکر ایک مثنوی ہے ، جس میں ان کے حالا ت و
واقعات لکھے ہیں اور اس لحاظ سے وہ گویا مو لا نا رومیؒ کی مختصر سوانح عمر ی ہے ۔
وفات
بقیہ زندگی وہیں گزار کر 1273 ء بمطابق 672ہجری میں انتقال
کر گئے ۔ قونیہ میں ان کا مزار آج بھی عقیدت مندوں کا مر کز ہے ۔
مثنوی رومی
ان کی سب سے مشہور تصنیف "مثنوی مولا نا روم"
ہے ۔ اس کے علا وہ ان کی ایک مشہو ر کتا ب "فیہ ما فیہ " بھی ہے
۔
علا مہ محمد اقبالؒ اور رومی ؒ
علا مہ محمد اقبال ؒ مو لا نا رومی ؒ کو اپنا روحا نی پیر
ما نتے تھے۔ کشف اور وجدان کے ذریعے ادراک حقیقت کے بعد صوفی صحیح معنوں میں عاشق
ہو جا تا ہے کہ بہ رغبت تما م محبو ب حقیقی کے تما م احکا م کی پیروی کر تا ہے ۔
رومی نے جو ہر عشق کی تعریف اور اس کی ما ہیت کی طرف معنی خیز اشا رے کئے ہیں
مولا نا رومی کے 800ویں جشن پیدائش پر ترکی حکومت کی
درخواست پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم ، ثقافت و سا ئنس یونیسکو نے 2007ء
کو" بین الاقوامی سال رومی" قرار دیا تھا۔

