![]() |
شیخ سعدیؒ |
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ
علیہ کا نا م شرف الدین ، لقب مصلح الدین، تخلص سعدی اور وطن شیر ازہے(جو صدیوں تک
ایر ان کا دارالحکو مت رہا)، جس کی وجہ سے آپ کو شیرازی بھی کہا جا تا ہے ۔ آپ کی
پیدائش 589ھ بمطابق 1333ء کے لگ بھک ہو ئی اور وفات 691ھ میں ہو ئی ۔ اس لحاظ سے
تو آپ کی عمر ایک سو دو سال بنتی ہے مگر بعض تذکر ہ نویسوں نے آپ کی عمر ایک سو
بیس سا ل لکھی ہے (واللہ اعلم) ۔آپ کے والد ما جد شیخ عبداللہ شیرازی چونکہ بادشاہ
اتابک سعد زنگی کے ملا زم تھے اس لئے شیخ
رحمتہ اللہ علیہ نے سعد کی نسبت سے اپنا تخلص سعدی تجویز فرما یا ۔
آپ نے اپنی زندگی کے تیس
برس تعلیم حا صل کر نے میں صرف کیے ، تیس سال سیر و سیا حت میں گزارے ، تیس سال
تصنیف و تالیف میں بسر کئے اور باقی تقریبا ً بیس سال کا عرصہ گو شہ نشینی اور
عزلت میں رہے ۔
تصوف و روحا نیت کی منا زل طے کر نے کے لئے آپ نے حضرت شیخ شہا ب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کو اپنا راہنما و را ہبر منتخب کیا ۔ اگرچہ بسا اوقات آپ شا ہا ن وقت کی تعر یف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں ،لیکن اسی کی آڑ میں امراء و سلا طین کو نصیحت کر تے اور ان کے سا منے حق بات کہتے ہو ئے بھی دکھا ئی دیتے ہیں اور یہ اس وقت کی بات ہے کہ بقول شیخ علی بن احمد ، جب بڑے بڑے علما ء و مشا ئخ ایک سبزی فروش اور قصا ب کو بھی نصیحت کرتے ہو ئے گھبراتے تھے ۔ آپ نے گلستا ن میں خود لکھا ہے "بادشا ہو ں کو نصیحت وہی شخص کر سکتا ہے جسے نہ اپنے سر کا خو ف ہو نہ زر کی امید۔"
آپ کی زندگی صبرو قنا عت
اور عزت نفس سے عبارت ہے جس پر گلستان و بوستا ن کی کئی حکا یا ت شا ید ہیں ۔
خودداری، غیر ت و حمیت دینی کو کسی صورت بھی قربان کر نے کا آپ کی زندگی میں تصور
تک نہ تھا ۔
آپ اپنی زندگی میں ہی
فصاحت و بلا غت ، حسن تقریر و زوربیاں ، قوت گویا ئی اور ادیبانہ انداز تکلم کی
بناء پر شہر ت کے آسمان پر ستارے بن کر چمکتے رہے شعروسخن پر آپ کو اس قدر ملکہ
اور مہا رت تا مہ حا صل تھی کہ ایک مر تبہ ترکستان کے صدر مقام کاشغر میں پہنچے ،
یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب چنگیزخان نے سلطان محمد خوارزم سے چند دنوں کے لئے صلح
کر رکھی تھی شیخ مسجد میں پہنچے تو دیکھا کہ ایک طالب علم مقدمہ زمحشری ہا تھ میں
لئے ضرب زیدوعمروا کا رٹا لگا رہا ہے ۔ شیخ نے ازراہ مزاح طا لب
علم کو فرما یا ! بھئی میا ں صا حبزادے !خوارزم و چنگیز میں تو صلح ہو گئی ہے لیکن
زیدوعمر نے کو نسا ایسا جر م کیا ہے کہ ان کی لڑا ئی آج بھی جا ری ہے اور صلح نہیں
کر رہے ؟ طالب علم اس ظرافت آمیز مقولہ پر ہنس پڑا اور پو چھا ! آپ کا وطن کو نسا
ہے ؟ شیخ نے فرمایا شیراز۔ شیرا ر کا نا م
سنتے ہی طا لب علم نے فوراً سعدی کا کلا م سننے کی فرما ئش کر ڈالی ۔ شیخ نے فی
البدیہہ عربی کے دوشعر سنا دیے اس نے فا رسی کلا م کا مطا لبہ کیا ، شیخ نے اسی
وقت شعر بنا یا اور سنا دیا جو یہ ہے ۔
اے
دل عشاق بدام
تو صید
ما بتو مشغول
و تو با عمر
و زید
یہ شعر سنا کر سعدی تو کا
شغر سے روانہ ہو گئے اور طا لب علم ورطہ حیر ت میں ڈوب گیا ، جب کسی نے بتا یا کہ
یہی سعدی تھے تو کف افسوس ملنے لگا کہ کچھ اور حا صل کر لیا ہو تا ۔
شیخ کی تصا نیف میں سے
گلستا ن و بوستا ن ایسی دو کتا بیں ہیں کہ بہت کم کسی کتا ب کو ان جیسی مقبولیت
ملی ہو گی ۔ کئی مما لک اسلامیہ میں یہ کتب با قاعدہ مدارس کے نصا ب میں شامل ہیں
جو مقام فارسی نثر میں گلستاں کا ہے وہی فارسی نظم میں بوستا ن کو حا صل ہے ۔ بو
ستان کی تقریباًتما م حکا یا ت سعدی کی اپنی آپ بیتی و تجربات و مشا ہدات پر مبنی ہیں
، لیکن اپنی اس سرگزشت سے بھی انہوں نے جو اخلا قی نتا ئج اور پندو نصا ئح اخذ کیے
ان کا اثر پڑھنے اور سننے والے پر دیرپا ہو تا ہے ۔

