Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

کامیابی


کامیابی

کامیابی

"اگرآپ جلد نتا ئج کے خواہا ں رہتے ہیں تو اس بات کا یقین کر لیں کہ کامیابی کے لئے بہت ساوقت اورمحنت درکا ر ہے! " 

1۔جذبہ

ایک سکو ل کے با ہر غبا رے بک رہے تھے ۔ غبا روں کے اند ر گیس بھر ی ہو ئی تھی۔ غبا رے بیچنے والا اپنے غبا روں کی فروخت  کو بڑھا نے کے لئے ہر تھو ڑی سی دیر کے بعد دو تین غبارے ہو امیں چھو ڑدیتا تھا تا کہ بچے اڑتے ہو ئے غبا رے دیکھیں اور خریدنے آئیں ۔ اس نے دیکھا کہ ایک بچہ جس کا رنگ کا لا ہے، دیوار کے ساتھ لگا خا صی دیر سے اسے دیکھ رہا ہے ۔ اس نے بچے کو اپنے پا س بلا یا اور کہا کہ بیٹا  اگر تمہیں غبار ہ چا ہیےتو تم ایک کام کرو، یہ لے لو۔ میں تم سے پیسے نہیں لو ں گا۔ اس بچے نے اس کے جو اب میں کہا کہ  "نہیں انکل ۔۔۔۔۔میں تو یہ دیکھنا چا ہ رہا ہوں کہ کیا کا لے رنگ کا غبا رہ اڑسکتا ہے یا نہیں ؟ " اس کے جو اب میں غبا رے والے نے کہا کہ "نہ کا لا غبا رہ اڑتا ہے ، نہ نیلا غبارہ اڑتا ہے  ، بلکہ غبارے کے اندر موجو دگیس اس کو اڑانے کے قابل بنا تی ہے ۔"اسی لئے یہ بات ذہن میں رکھئے کہ آدمی کے اندر کچھ ہو گا تو وہ اڑان کے قا بل بنے گا۔کامیابی پانے کے لئے انسان کے اندرجذبہ کا ہونا بہت ضروری ہے کیوں کہ انسان کے اندر کچھ کرگزرنے کا جذبہ نہیں ہو گا تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ 

آپ سب سے پہلے اپنی معا ش کا بند وبست کیجئے اور آپ کا شو ق اگر معاشرے یا آپ کے معا ش کے مطا بق نہیں ہے تو اسے سا تھ سا تھ چلا تے رہیے ۔ ابتدا میں اسے ذریعہ معا ش نہ بنا ئیے ۔ فرض کیجئے ٹریننگ ایک شو ق ہے اور اس سے کما یا بھی جا سکتا ہے ۔ مگر آپ اس شو ق کو فری میں شروع کر دیں ۔ ہمیں بچپن سے سکھا یا جا تا ہے کہ بیٹا سا را کھانا تم نے خو د کھا نا ہے ، کسی سا تھ والے بچے کو نہیں دینا ۔ جب اتنی تنگ دلی ہو گی تو پھر آدمی کا ویژن دوسروں کو فا ئدہ دینے کے لئے ، ملک کی نفع رسانی اور معا شرے کو بدلنے کے لئے نہیں ہو گا۔

تجزیہ یہ ہے کہ ہر فیلڈ میں اوسطاً80فیصد لو گ نا کا م ہو تے ہیں اور 20فیصد کا میا ب ہو تےہیں ۔ کا میا ب ہو نے والے کیو ں کا میا ب ہو تے ہیں؟ کیوں کہ انہوں نے کا میا ب ہو نے کا فیصلہ کیا ہو تا ہے ، ورنہ 80 فیصد کبھی بھی نہیں چا ہتے کہ وہ کا میا ب ہو ں ۔ انسا ن جب سے دنیا میں آیا ہے سا ری مزاحمت اسی کے لئے ہے ۔ جو انسان  اپنے جذبے سے یہ ثا بت کر تا ہے کہ میں اس مز احمت کو نہیں ما نتا ، مجھے اس مزاحمت کی رکا وٹ کو توڑ کر آگے بڑھنا ہے وہ کا میا بی پا تا ہے ۔

2۔قدرتی صلا حیتیں

جس کا م کے لئے خدا انسان کو پیدا کر تا ہے ، اگر انسا ن وہی کا م کر ے تو اسے اس کا م میں اطمینا ن ہو تا ہے ۔                                                                    انسا ن ہمیشہ فیصلہ اس نکتے پر کر تا ہے کہ مجھے اطمینا ن یا خوشی کہا ں سے ملے گا۔ انسا ن پر اللہ تعالیٰ کی ایک بہت                               بڑ ی رحمت "بوریت" یا بیزاری ہے ۔ بو ریت ہمیں بتا تی ہے کہ ہمیں کیا کر نا ہے اور کیا نہیں کر نا ہے ۔ جس کا م کے لئے ہم پیدا نہیں کئے گئے ، وہی کا م کر یں تو اس کام میں ہمیں بوریت ہو نے لگتی ہے ۔ اند ر سے جو اب آتا ہے کہ یہ کا م میرا نہیں ہے ۔ جس کو کر تے ہو ئے معا وضے کی پروا ختم ہو جا ئے، یہ علا مت ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے                                       آ پ کو اسی کام کے لئے پیدا کیا ہے ۔ مشہور ہندی فلم "تھری ایڈیٹس" کے آخر میں ایک کردار کا یہ جملہ بہت اہم ہے کہ " تھو ڑے پیسے کما لو ں گا پا پا لیکن مجھے اطمینا ن تو ہوگا۔"

جب آپ اپنی فطر ت کے مطا بق کا م شرو ع کر تے ہیں تو چا ہے نہ چا ہے ، آپ کا دشمن بھی آپ کے کا م کی تعریف کر دیتا ہے ۔ انسا ن دنیا میں واحد مخلو ق ہے جس کی کھانے کی ڈشوں کے ساتھ سا تھ ایک اور ڈش    بھی                               ضرو ری ہو تی ہے ، اور وہ ہے تعریف۔ ہمیں آگے بڑھنے کے لئے تعریف کی ضرورت ہو تی ہے ۔ اگر آپ میں کوئی صلا حیت ہے تو آپ اسے لا کھ چھپا ئیں ، تعریف آنے لگتی ہے ۔

جس کا م کے لئے اللہ تعا لیٰ نے آپ کو پیدا کیا ہے ، اس کا م کو کرتے ہوئے آپ وقت کی قید سے آزاد ہو جا تے ہیں ۔ اس میں آپ کو تھکا وٹ کا احسا س نہیں ہو تا ۔ جو صلا حیت آ پ کے پا س ہو تی ہے ، اس کی معلو مات چا ہے ان                                      چا ہے ، اکٹھی ہو نا شرو ع ہو جا تی ہے ۔ آپ کا دل کر تا ہے کہ میں اس کا پتا کر وں ۔ اللہ انسانوں سے کا م لیتا ہے ، انہیں آگے بڑھا تا ہے اور تبھی یہ ممکن ہے کہ آپ یہ جا نیں کہ آپ کو اللہ نے کس کا م کے لئے پیدا کیا ہے ۔

3۔کہا نی بن جا ئیے

ہمار ے بڑے ہماری شروع کی زندگی میں یہ سوال ہی نہیں اٹھا تے کہ ہمیں کیا کر نا ہے ۔ جس میں تڑپ ہے ، لگن ہے ، آنسو ہیں ، اضطراب ہے ، وہ زیا دہ ترقی کر سکتا ہے ۔ یہ سا ری علا متیں ظا ہر کرتی ہیں کہ قدرت نے اس سے کو ئی کا م لینا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کام کرنا کیا ہے ؟ اگر آپ دل سے یہ سوال کر تے ہیں تو قدرت یقینا ًآپ کو اس کا جو ا ب دیتی ہے ۔ آپ کتا ب "دی ہیرو" پڑھیں تو آپ کو اس کتا ب میں ان خا ص علا ما ت کا پتا چلے گا کہ دنیا میں جتنے عظیم لو گ ہیں ، وقت سے پہلے قدرت نے انہیں اشارے دینے شرو ع کر دئیے تھے کہ تم یہ کرو ، تم وہ کر جا ؤ گے ۔

ہما رے سا تھ مسئلہ یہ کہ ہمیں قدرت کہہ رہی ہو تی ہے ، مگر ہم سنتے نہیں ۔ ہم دنیا کو سن رہےہو تے ہیں اور دنیا کو کیا پتہ کہ ہمیں خدا نے کس کا م کے لئے پیدا کیا ہے ۔ لہٰذا ، ہم اپنے بارے میں درست فیصلہ نہیں کر پا تے ، پھر وہ چیز ہما ر اپچھتا وا بن جا تی ہے ۔ 

آدمی جب جرات کا مظا ہر ہ کر تا ہے تو پھر وہ آگے نکل جا تا ہے ۔ کبھی یہ مت بتا ئیے کہ میں کیا کر نے جا رہا ہو ں ۔ کر کے دکھائیے تا کہ دنیا کو پتا لگ جا ئے کہ آپ کیا ہیں ۔ اپنے آپ کو اس جگہ پر لے کر جا ئیے جہا ں زمین ختم                                                                ہو تی ہے ۔ آپ وہاں سے اڑنا شرو ع کیجئے ۔ ہمارے سا تھ مسئلہ یہ ہو تا ہے کہ ہما ر طیا رہ ائیر پو رٹ ہی نہیں چھوڑتا ، وہ فضا ؤں میں کیا جا ئے گا۔

اعلیٰ عہدے پر جا نے کے لئے قربانیا ں دینی پڑتی ہیں۔ دورحا ضر کے ایک کا میا ب انسان کا کہنا ہے کہ "جو لو گ               نو کر ی کر تےہیں دولت مند وہ بھی ہو جا تے ہیں ، لیکن ان کی زندگی میں کہا نی نا م کی کوئی چیز نہیں ہو تی۔"کامیا ب کہا نی قربانیوں سے بنتی ہے ۔ جو آدمی پچھلی ٹرین نہیں چھوڑسکتا ، وہ اگلی ٹرین کو پکڑ بھی نہیں سکتا ۔ ہم میں                                                                                                  حو صلہ ہی نہیں ہو تا کہ اگر ہم نے یہ ٹر ین چھوڑ دی تو اگلی بھی نہ چھو ٹ جا ئے ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنے آپ پر اعتما د نہیں ہے ۔ جب خود پر اعتما د نہیں ہو گا تو آ پ  فیصلہ نہیں کر سکیں گے ۔ پھر آپ محتا ج ہو جا ئیں گے کہ ابا جی میں کیا کروں ؟ آ پ ان کا ادب ضرو ر کیجئے ، خو ب ادب کیجئے کہ وہ آ پ کے والدین ہیں ۔ ان کے                                                                                                                                                     سا رے لوازما ت پو رے کیجئے جو آپ کر سکتے ہیں ۔ لیکن کیرئیر آپ کا اپنا ہے زندگی آپ کی اپنی ہے ۔ آپ اپنے اند ر خو د دیکھ سکتے ہیں ، کیونکہ یہ انعا م اللہ تعا لیٰ نے صر ف آ پ کو دیا ہے ۔ دنیا میں ترقی کر کے جب بھی کوئی بڑا انسان بنا ہے ، وہ جو کا م کر رہا ہو تا ہے وہ اس کے بارے میں نہیں بتا تا ۔ لیکن وقت بتا تا ہے کہ وہ کیا کر گیا ۔ وہ                                                                                                تا ریخ رقم کر جا تا ہے ۔

4۔توانائی

قدرت بعض لو گو ں کو بہت پر کشش شخصیت دے کر بھیجتی ہے ، جیسے قطب الدین ایبک  جنہیں "یو سف ثا نی " کا لقب ملا ۔ دنیا کی تا ریخ میں حضر ت یو سف علیہ السلام بہت ہی زیا دہ خوبصورت تھے۔ اس کے بعد اگر کسی کو                                                              خو بصور ت کہا گیا ہے تو وہ قطب الدین ایبک کو کہا گیا ہے ۔ یہ قدرت کا انعا م ہے ۔ بعض دفعہ قدرت کئی لو گوں کو بہت زیا دہ توانائی دے دیتی ہے ۔ ان میں اتنی زیادہ تو انا ئی ہو تی ہے کہ ان کے آگے کا م چھوٹے رہ جا تے ہیں ۔

زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب آ پ منتخب کر تے ہیں کہ آپ کو کیا کر نا ہے ۔ آپ اپنی سا ری توانا ئی اس پر لگا دیتے ہیں اور باقی لو گو ں سے کئی گنا آگے نکل جا تے ہیں ۔ کو شش کر کے اپنا وہ کا م تلا ش کیجئے جس کے لئے آپ پیدا کئے گئے ہیں ۔ اگر نہ ملے تو اللہ تعا لیٰ سے دعا مانگا کر یں ۔ جس کے پا س توانا ئی زیا دہ ہو تی ہے ، اسے زیادہ ٹکر یں ما رنی پڑتی ہیں  ۔ چلتی چیزکا زیا دہ ڈر ہو تا ہے کہ وہ کہیں بھی ٹکر ا سکتی ہے ۔ اگر سمت ، منصو بہ بند ی ہو تو توانا ئی والا فرد دو سروں سے آگے نکل جا تا ہے ۔ نکمے آدمی کو کبھی ٹینشن نہیں ہو تی ۔ وہ تو زندہ رہتے ہو ئے بھی مو ت کے انتظا رمیں رہتا ہے ۔ عقل و فہم اور توانا ئی رکھنے والا بہت بے چین رہتا ہے ، کیوں کہ اسے یہ احسا س ، یہ ادراک ہو تا کہ کہ مجھے زندگی ایک بار ملی ہے ، اس میں بہت کچھ کیسے کر جا ؤں؟

زندگی میں جو سب کی سنتا ہے ، اور انہیں خوش کر نے کی کو شش کر تا ہے ، اسے منا فق کہا جا تا ہے ۔ آپ اس                                                                                    منا فقت سے بچیں اور اپنے مقصد اور حصول کے لئے کو شا ں رہیں ۔

5۔شنا خت بنا ئیں

بڑاکا م کر نے کے لئے دوچیزوں کی ضرو رت ہو تی ہے  یا تو آپ سب چیزوں سے آزاد ہو جا ئیں یا پھر اتنا کچھ حا صل کر لیں کہ پر وا ہی ختم ہو جا ئے۔ امیر تیمور دنیا کا وہ با دشا ہ تھا جس نے کھوپڑیوں کے مینا ر بنانے کا آغا ز کیا ۔ یہ اس کی فتح کا نشا ن تھا۔ وہ جس علا قے کو فتح کر تا ، اس علا قے کے جتنے بھی قا بل لو گ ہو تے تھے ، وہ ان کے سر اتروادیتا تھا پھر وہ سارے سر اکٹھے کر کے مینا ر بنا تا ۔ پھر اس پر جسموں کی چر بی ڈال دیتا تھا ۔ اس کے بعد آگ لگا دیتا اور وہ آگ کئی کئی مہینے جلتی رہتی۔ جب وہ شیراز پہنچا تو اس نے اعلا ن کیا کہ پو رے شہر کو اما ن دے دو۔ اس کے جر نیل نے کہا کہ با دشا ہ سلا مت آپ تو کسی کو نہیں چھو ڑتے ، یہ کیا ہو ا ؟ اس نے جو اب دیا ، یہا ں میر ا استا د دفن ہے ۔ جرنیل نے کہا ، آپ تو یہاں کبھی آئے ہی نہیں تو آپ کو کیسے پتہ کہ یہا ں پر آپ کا استا د دفن ہے ؟ تیمو ر نے جو اب دیا "یہا ں حضرت شیخ سعدی ؒ دفن ہیں ۔" جرنیل نے کہا ، آپ تو کبھی ان سے ملے ہی نہیں ہیں ، انہیں تو دنیا سے گئے ہو ئے عر صہ ہو چلا ہے ۔ امیر تیمور نے جو ا ب دیا کہ میں  نے ان کی کتا ب "بوستان" اور "گلستان" پڑھی ہیں ۔ میں نے ان کتا بو ں میں ایک جملہ پڑھا تھا اور اس ایک جملے نے مجھے ایک سپا ہی سے اتنا بڑا                                                   با دشا ہ بنا یا ہے ، اور وہ جملہ یہ تھا کہ "زندگی میں علم اور پیسہ خوب حا صل کر و، کیوں کہ میں نے بڑے پیسے والوں کو بھی رلتے دیکھا ہے اور بڑے علم والو ں کو بھی پیسے والوں کا محتا ج دیکھا ہے ۔"

جب یہ دو محتا جیا ں ختم ہو جا تی ہیں تو پھر دما غ سو چنا شرو ع کر تا ہے ۔ جب تک زند گی کی تلخیاں آ پ کے ساتھ جڑی ہو ئی ہیں تب تک آپ بڑ اسو چ نہیں سکتے ۔ اس کے لئے صر ف ایک چیز ضرو ری ہے کہ سو چ کے تا لو ں کو کھولا جا ئے ۔

اگر آپ زندگی کے کسی ایک حصے کو دیکھیں تو زندگی آپ کو ٹھہر ی ہو ئی لگے گی۔ زندگی میں ہر ایک کو مختلف                                                                           امتحا نات کا سا منا کر نا پڑ تا ہے ۔ امتحا نا ت کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ آپ کو ان کو سا منا کر نا پڑے گا۔ آپ کو ثا بت                                     کر نا پڑے گا کہ مسئلہ بڑا ہے یا آپ مسئلے سے بڑے ہیں ۔ فیصلہ آپ پر ہے ۔

اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ کو اور مجھے یہ شرف  بھی حا صل ہے کہ ہم دنیا کی وہ وا حد امت ہیں جنہیں یہ اعزا ز                                                                   حا صل ہے کہ اگر آ پ نے اپنے مکا ن میں روشن دان اس نیت سے لگا یا کہ اس سے اذان کی آواز آئے گی تو آپ کو اذان سننے کا ثواب ملے گا اور آپ اذان سن کر نما ز کی تیاری بھی کر یں گے ۔ آواز تو آنی ہی آنی ہے آپ کی اس نیت کی وجہ سے آپ کو ثواب ملے گا۔

ہما رےلئے لمحہ فکریہ ہے کہ آج ہم نے دین اور دنیا کو علیحدہ کر دیا ہے ۔ دین نہ تو فقط عبا دات کا نا م ہے اور نہ دنیا کا روبا ر حیا ت کا نا م ہے ۔ آپ کی نیت آپ کا دین بھی اور دنیا بھی ۔ اللہ تعا لیٰ نے یہ اختیا ر آپ کو دیا ہے ۔ اسی لئے ہم سے سوال کیا جا ئے گا اور سوال اسی سے کیا جا تا ہے جس کے پا س چو ائس ہو تی ہے ، جس کے پاس اختیا ر ہو تا ہے ۔